اسرائیل نے ایران کی جوہری یا تیل تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا یقین دلایا ہے، امریکا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے امریکہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ ایران کی جوہری یا تیل کی تنصیبات پر حملہ نہیں کرے گا۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ یقین دہانی حتمی نہیں ہے

بائیڈن انتظامیہ کا خیال ہے کہ اس نے اسرائیل سے یہ یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ وہ ایران کے جوہری یا تیل کے مقامات کو ایک ایسے وقت میں نشانہ نہیں بنائے گا جب وہ اس ماہ کے شروع میں ایران کے میزائلوں کے ایک حملےکے بعد جوابی حملہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات دو امریکی عہدے داروں نے منگل کو کہی۔

تاہم، امریکی عہدہ داروں نے، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نجی سفارتی بات چیت پر گفتگو کی ہے، خبردار کیا کہ یہ یقین دہانی حتمی نہیں ہے اور یہ کہ حالات بدل سکتے ہیں۔ عہدیداروں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں یقین دہانیوں کو پورا کرنے کے بارے میں اسرائیل کا ٹریک ریکارڈ ملا جلا ہے اور اس نے اکثر اندرون ملک اسرائیلی سیاست کی عکاسی کی ہے جس نے واشنگٹن کی توقعات پر پانی پھیرا ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ ماہ سامنے آئی جب امریکی حکام کو ان کے اسرائیلی ہم منصبوں نے بتایا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو لبنان کے لیے امریکی اور فرانسیسی قیادت میں عارضی جنگ بندی کے اقدام کا خیرمقدم کریں گے لیکن اس کے دو دن بعد دیکھا گیا کہ اسرائیل نے ایک بڑا فضائی حملہ کیا جس میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ ہلاک ہوئے تھے۔

نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ “ہم امریکہ کی رائے کو سنتے ہیں، لیکن ہم اپنے حتمی فیصلے اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر کریں گے۔”

انتظامیہ کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو یو ایس ٹرمینل ہائی ایلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس،( THAAD ) بیٹری اور اسے آپریٹ کرنے کے لیے تقریباً 100 فوجی بھیجنے سے ایران کی ممکنہ انتقامی کارروائی اور اپنے سیکیورٹی کے عمومی مسائل کے بارے میں اسرائیل کے کچھ خدشات میں کمی آئی ہے۔

پینٹاگون نے اسرائیل پر اپریل اور اکتوبر میں ایران کے بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد اسرائیل کے فضائی دفاع کو تقویت دینے کے لیے اتوار کو THAAD کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی اجازت صدر جو بائیڈن کی ہدایت پر دی گئی ہے۔

یکم اکتوبر کو ایران کی جانب سے تقریباً 180 بیلسٹک میزائلوں کے داغے جانے کے بعد، جنہیں روکنے میں امریکہ نے مدد کی تھی، مشرق وسطیٰ کسی اسرائیلی متوقع ردعمل کے لیے تیار رہا ہے۔ ادلے بدلے کے حملوں اور اس بارے میں غیر یقینی صورتحال نے کہ اسرائیل ایران کے اہم توانائی اور جوہری مقامات پر حملہ کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں جنگ بڑھ کر ایک مکمل علاقائی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ تہران کے جوہری مقامات پر جوابی اسرائیلی حملے کی حمایت نہیں کریں گے اور انہوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے تیل کے شعبے کو نشانہ بنانے کے متبادلوں پر غور کرے۔

اس طرح کا کوئی حملہ تیل کی عالمی منڈی کو متاثر کر سکتا ہے اور امریکی صدارتی انتخابات سے عین پہلے صارفین کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔

بائیڈن اور نیتن یاہو نے سات ہفتوں میں پہلی بار گزشتہ ہفتے فون پر بات کی تھی، جبکہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اپنے اسرائیلی ہم منصب یوو گیلنٹ کے ساتھ باقاعدگی سے بات کر رہے ہیں۔

پینٹاگون نے اتوار کے روز ایک کال کے بارے میں تحریری معلومات میں کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی حمایت کی توثیق کر دی ہے لیکن اس پر زور دیا ہے کہ وہ جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن کاروں کے تحفظ کو یقینی بنائے، فوجی کارروائیوں سے سفارتی حل کی طرف جائے اور غزہ میں انسانی ہمدردی کی سنگین صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ اس سے نمٹنے کے لیے جلد اقدامات کیے جائیں۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ نیتن یاہو نے بائیڈن کو ایران میں اہداف کے بارے میں کسی یقین دہانی کی پیش کش کی ہے۔

وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل نے ایک بیان میں کہا، ’’اسرائیل کے دفاع کے لیے ہمارا عزم آہنی ہے ۔ ہم نجی سفارتی بات چیت پر گفتگو نہیں کریں گے اور آپ کو اسرائیل کی ممکنہ فوجی کارروائیوں پر بات کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت سے رجوع کے لیے کہیں گے ۔”

غزہ میں ایرانی حمایت یافتہ حماس کے عسکریت پسندوں کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر دیشت گرد حملے کے خلاف، اسرائیل کی فوجی مہم پھیل کر لبنان پر زمینی حملے کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں لبنان میں ایران کے ایک اور پراکسی گروپ حزب اللہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں