برسلز + برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/رائٹرز) بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے موقع پر یوکرینی صدر اپنے ’فتح کے منصوبے‘ کے لیے یورپی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
آج جمعرات 17 اکتوبر کو برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے موقع پر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ان کے ملک کے پاس ایسی انٹیلیجنس معلومات ہیں کہ شمالی کوریا کے 10 ہزار فوجی ان کے ملک کے خلاف لڑنے والی روسی افواج میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
زیلنسکی نے اپنے اس دعوے کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ گزشتہ روز ہی امریکی نائب وزیر خارجہ کرٹ کیمبل نے سیول میں کہا تھا کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی یوکرین میں روس کی جنگ میں شمالی کوریا کی فوجی حمایت پر فکرمند ہیں لیکن وہ یوکرین کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے کہ شمالی کوریا کے فوجی ماسکو کی طرف سے لڑنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔
صدر زیلنسکی نے کہا، ”ہم جانتے ہیں کہ شمالی کوریا کے تقریباﹰ 10 ہزار فوجی ہمارے خلاف لڑنے کے لیے بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔‘‘ ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شمالی کوریا کی اس طرح کی کوئی بھی شمولیت ”عالمی جنگ کی طرف پہلا قدم‘‘ ہو گی۔
یوکرین کے صدر کے اس بیان نے ایک ایسے موقع پر ان کے مغربی اتحادیوں کے لیے تحفظات میں اضافہ کر دیا ہے، جب انہوں نے یورپی یونین کے رہنماؤں اور پھر نیٹو کے وزرائے دفاع سے ملاقات کی اور روس کے ساتھ اپنے ملک کی تباہ کن جنگ کے خاتمے کے لیے اپنے ‘فتح کے منصوبے‘ پر تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے یورپی یونین کے رہنماؤں سے کہا، ”اگر ہم ابھی شروع کریں اور فتح کے منصوبے پر عمل کریں، تو ہم اگلے سال کے آخر تک اس جنگ کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس منصوبے کا مقصد ”یوکرین کو مضبوط بنانا‘‘ اور یورپ کے مشرقی کنارے پر تنازعے کے خاتمے کے لیے سفارتی حل کی راہ ہموار کرنا ہے۔
انہوں نے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب سے قبل کہا، ”یہ منصوبہ روس کی مرضی پر منحصر نہیں ہے، بلکہ صرف ہمارے شراکت داروں کی مرضی پر منحصر ہے۔‘‘
جرمنی اسرائیل کو اس کے دفاع کے لیے ہتھیار فراہم کرے گا، شولس
ادھر جرمن چانسلر اولاف شولس نے کہا ہے کہ جرمنی ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے اسرائیل کے دفاع میں اس کی مدد جاری رکھے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنا چاہیے اور یہ کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کا دو ریاستی حل ہی ایک حتمی ہدف ہے۔
یورپی یونین کے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے حاشیے میں شولس نے کہا، ” میرے لیے یہ واضح ہے کہ اسرائیل کی حمایت کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم مسلسل اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کو یقینی بنا رہے ہیں، مثال کے طور پر فوجی سامان یا ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن وزارت اقتصادیات کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی نے گزشتہ آٹھ ہفتوں کے دوران اسرائیل کو 31 ملین یورو مالیت کا اسلحہ برآمد کرنے کی منظوری دی جو رواں سال کے پہلے ساڑھے سات ماہ کے مقابلے میں دوگنا ہے۔
اس سال کے اوائل میں برآمدی اجازت ناموں میں کمی کے بعد ملک میں حزب اختلاف کی طرف سے الزامات عائد کیے گئے تھے کہ برلن نے جان بوجھ کر ایسی عسکری برآمدات میں تاخیر کی۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ جرمنی نے اسرائیل کو ایسے ہتھیاروں کی برآمد کی منظوری نہیں دی جو سات اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں استعمال کیے جا سکیں۔
بدھ کے روز بیئربوک نے کہا تھا کہ برلن اسرائیلی حکومت کے ایک خط کا انتظار کر رہا ہے جس میں یقین دہانی کرائی جائے گی کہ جرمنی کی جانب سے فراہم کردہ فوجی ساز و سامان کے استعمال کے دوران بین الاقوامی انسانی قوانین پر عمل کیا جائے گا۔
یورپی یونین کا مہاجرت سے نمٹنے کا نیا منصوبہ
یورپی یونین کے رہنما آج جمعرات کو ہونے والے اپنے سربراہی اجلاس میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیے یورپی یونین کو ایک مشکل منزل بنانے کی کوششوں پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔ اس پیش رفت کی وجہ انتہائی دائیں بازو کی حمایت میں حالیہ اضافہ ہے۔
برسلز میں ہونے والی اس یورپی سربراہی کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی یورپی یونین کے رہنما ناپسندیدہ تارکین وطن کو اس بلاک سے نکالنے اور اپنی سرحدوں سے باہر پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کرنے کے لیے اقدامات تیز کرنے کے منصوبوں پر غور کر رہے تھے۔
نیدرلینڈز کے وزیر اعظم ڈِکس ہوف کے مطابق، ”ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں ایک مختلف مزاج ہے۔‘‘
ڈکس ہوف انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گیئرٹ وِلڈرز کی جماعت کی اکثریت والی حکومت کے سربراہ ہیں۔
ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے تارکین وطن کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک اس طرح کے مسائل اٹھانا ”کھیلوں کے خالی ہال میں چیخنے کے مترادف تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب بہت سے ممالک ہیں، جو اس پر مل کر کام کر رہے ہیں۔
میٹے فریڈرکسن کا مزید کہنا تھا، ”یورپ کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہم سے تھک چکی ہے کہ ہم باہر سے آنے والے ایسے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جن میں سے کچھ انتہا پسند ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا، ”یہ اس طرح جاری نہیں رہ سکتا۔ اس کی ایک حد ہے کہ ہم کتنے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
اس بحث کے تانے بانے 2015 میں مہاجرین کی آمد سے جڑے ہیں، جب یورپی یونین کو مہاجرت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت دس لاکھ سے زیادہ تارکین وطن اور پناہ گزین یورپ آئے تھے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک اور افغانستان سے۔
اب یورپی یونین کے رہنما اپنے اپنے ملکوں کی قومی سرحدوں پر مزید سختی کرنا چاہتے ہیں اور ایسے اقدامات کو اپنانا چاہتے ہیں،جو چند سال پہلے ناقابل قبول نظر آتے تھے۔
حالیہ ہفتوں میں پولینڈ نے کہا ہے کہ وہ پناہ کے حق کو عارضی طور پر معطل کرنا چاہتا ہے، اٹلی نے البانیہ میں اپنی سرحدوں سے باہر پناہ گزینوں سے متعلق کارروائی کے لیے دو مراکز کھولے ہیں اور جرمنی نے بھی اپنے ہاں سرحدی کنٹرول بحال کر دیا ہے۔
جون میں ہونے والے یورپی یونین کے پارلیمانی انتخابات اور ان کے بعد جرمنی اور آسٹریا میں ہونے والے دیگر انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کے لیے ووٹوں میں اضافے کی وجہ سے یورپی رہنما غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے پر سخت اقدامات پر غور کر رہے ہیں تاکہ عوام میں اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر سکیں۔