اسرائیلی فوج نے حماس سربراہ یحییٰ السنوار کو غزہ میں ہلاک کردیا، وزیراعظم نیتن یاہو

یروشلم (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو ’ہولوکاسٹ کے بعد سے اپنے لوگوں کے بد ترین قتلِ عام میں ملوث فرد قرار دیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ اسرائیل نے ’ان کے ساتھ معاملات تو طے ہوئے‘ لیکن ’ہمارے کام ابھی مکمل نہیں ہوا‘ کیونکہ اسرائیل اپنے یرغمالیوں کو وطن واپس لانے تک یہ جنگ جاری رکھے گا۔‘

غزہ میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’سنوار نے آپ کی زندگیاں تباہ کر دیں‘ اور اب جب وہ مر چکے ہیں تو ’حماس اب علاقے پر اپنا کنٹرول کھو چُکی ہے۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے یرغمالیوں کی واپسی ہمارے تمام مقاصد کو حاصل کرنے کا ایک موقع ہے اور جنگ کا اختتام بھی یہی ہوگا۔‘

نیتن یاہو نے یرغمالیوں سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس کسی کی بھی حراست میں ہمارے لوگ (یرغمال بنائے گیے اسرائیلی) ہیں انھیں وانگ دی جا رہی ہے کہ ’جو کوئی بھی اپنا ہتھیار ڈال دے گا اور ہمارے یرغمالیوں کو رہا اور اسرائیل کے حوالے کر دے گا اسے نا صرف جانے دیا جائے گا بلکہ اُن اُسے کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔‘

تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ بات یاد رکھی جائے کہ جو بھی ہمارے یرغمالیوں کو نقصان پہنچائے گا، اس کا خون اس کے اپنے سر پر ہے۔ ہم ان کے ساتھ حساب کتاب برابر کریں گے۔‘

حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو ہلاک کر دیا گیا ہے، اسرائیلی وزیرِ خارجہ

اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کی جانب سے حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ ’حماس کے سربراہ کو جمعرات کے روز اسرائیلی فوجیوں نے ہلاک کر دیا۔‘ اسی کے ساتھ انھوں نے یحییٰ سنوار کو 7 اکتوبر کے قتل عام اور مظالم کا ماسٹر مائنڈ بھی قرار دیا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے سنوار کے قتل کو اسرائیل اور پوری آزاد دنیا کے لیے ایک اہم فوجی فتح اور اخلاقی کامیابی قرار دیا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ سنوار کی موت یرغمالیوں کی رہائی کی راہ ہموار کرے گی۔

تاہم اسرائیل کے صدر نے ​​حماس کے سربراہ کو مبینہ طور پر ہلاک کرنے پر اسرائیلی افواج کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یحییٰ سنوار ’اسرائیلی شہریوں، دوسرے ممالک کے شہریوں اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قتل کے خلاف دہشت گردی کی گھناؤنی کارروائیوں کے ذمہ دار تھے۔‘

یحییٰ سنوار کی شناخت فنگر پرنٹس اور دانتوں کی جانچ سے ہوئی

اسرائیلی پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی لاش کی شناخت ابتدائی طور پر اُن کے دانتوں کے تجزیے اور جائزے سے ہوئی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس کے بعد ان کے فنگر پرنٹس کا موازنہ کرکے اُن کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔‘

اسرائیل کے پاس ان کے ڈی این اے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ اُن کے فنگر پرنٹس (اُنگلیوں کے نشانات) موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یحییٰ 22 سال تک اسرائیل کی قید میں گُزار چُکے ہیں۔

واضح رہے کہ اب تک حماس کی جانب سے اپنے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بدھ کے روز ہلاک ہوئے، اسرائیلی دفاعی افواج

اسرائیل کی دفاعی افواج کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بدھ کے روز غزہ کے جنوب میں ایک فوجی کارروائی میں ہلاک کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری ہونے والے اس بیان سے قبل اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے اپنے ایک بیان میں حماس کے سربراہ یحییٰ سے متعلق بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اُنھیں جمعرات کے روز ہلاک کیا گیا۔ تاہم اسرائیلی انتظامیہ کے بیانات میں اس تضاد کی وجہ واضح نہیں۔

ایک بیان میں آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ سنوار نے 7 اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل درآمد کیا اور وہ ’بہت سے اسرائیلیوں کے قتل اور اغوا کے ذمہ دار تھے۔‘

بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یحییٰ سنوار کو غزہ کی پٹی میں حماس کی سرنگوں میں گزشتہ ایک سال تک چھپے رہنے کے بعد سُراغ لگا کر نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے سینئر ارکان کے مشتبہ ٹھکانوں کی نشاندہی کرنے والی انٹیلی جنس معلومات کے بعد جنوبی غزہ میں کارروائی کر رہی ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے والی آئی ڈی ایف کی 828 بریگیڈ نے ’تین شدت پسندوں کو شناخت کرنے کے بعد ہلاک کیا،‘ شناخت کے عمل میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار بھی تھے۔

یحییٰ السنوار کی ہلاکت: حماس کے لیے ایک بڑا دھچکہ

یحییٰ السنوار کا غزہ کے منظرنامے سے غائب ہو جانا حماس کے لیے ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا سٹریٹیجک نقصان ہے۔

سنہ 2013 میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں اسرائیلی جیل سے رہا ہونے کے بعد سے اگر اُن کا کریئر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حماس کے سیاسی اور عسکری ونگز سمیت طاقت کے دیگر تمام مراکز کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا۔

یحییٰ السنوار ہی وہ شخص تھے جو غزہ کا نظم چلانے والی حماس کی حکومتی کمیٹی کے سربراہ کا چناؤ کرتے تھے۔ انھوں نے ہی اپنے بھائی محمد کے ساتھ مل کر حماس کے عسکری ونگ کی مختلف بٹالینز کے سربراہان کا تقرر کیا تھا۔ ان کے بھائی محمد غزہ کی پٹی کے جنوبی حصوں میں حماس کے طاقتور مسلح گروہوں کی سربراہی کرتے ہیں۔

اور یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر حماس کے لیے ان کی ہلاکت کے صدمے کو برداشت کرنا اور اس سے باہر نکلنا مشکل بنا دے گا۔ ان کی عدم موجودگی میں ان کا ایسا متبادل تلاش کرنا جو ان ہی کی طرح قابل قبول ہو، ایک مشکل امر ہو گا۔

ماضی میں حماس اپنے سربراہ کے نام کو خفیہ رکھتی تھی اور اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد بھی یہ آپشن زیر غور تھا تاہم یحییٰ کے نام کا اعلان کر دیا گیا مگر اب ان کی ہلاکت کے بعد یہ آپشن ایک دفعہ دوبارہ زیر غور ہو گا۔

یحییٰ سنوار غزہ میں اسرائیل کو انتہائی مطلوب شخص تھا

یحییٰ سنوار غزہ میں اسرائیل کا سب سے بڑا ہدف ہیں اور اُن پر الزام ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حماس کے مہلک حملوں کے پیچھے اُن کا دماغ ہی کارفرما تھا۔ اکتوبر 2023 میں ہونے والے حملوں میں حماس کے ہزاروں جنگجو سرحدی باڑ کو توڑتے ہوئے اسرائیل میں داخل ہوئے جہاں انھوں نے 1200 افراد کو ہلاک جبکہ 250 سے زائد اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا۔

غزہ میں جمعرات کو اسرائیل کی جانب سے کی گئی کارروائی کے بعد آن لائن پوسٹ کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یحییٰ سنوار سے مشابہہ ایک شخص ایک عمارت کے ملبے میں ڈھیر میں پڑا ہے جس کے جسم پر واضح طور پر جان لیوا زخم موجود ہیں۔

یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلیوں کی طرف سے اس شخص کے جسمانی اور بائیو میٹرک ٹیسٹ کیے جائیں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والا شخص واقعی یحییٰ سنوار ہے یا کوئی اور۔

اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ملبے میں پڑا شخص یحیی سنوار ہی ہیں تو یہ اسرائیل کے لیے ایک اہم فوجی کامیابی ہو گی۔ 61 سالہ یحیی سنوار کو اسرائیلی قیدیوں کے ایک تبادلے کے طور پر سنہ 2011 میں اسرائیلی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔ رہائی کے بعد وہ حماس میں ایک سخت گیر اور انتہائی بااثر شخصیت بن گئے تھے جنھوں نے غزہ، اسرائیل تنازع پر سفارتی ذرائع بروئے کار لانے کے بجائے ہمیشہ مسلح تصادم کی حمایت کی۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ میں جنگ کے دوران اور خاص طور پر اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد سے یحییٰ سنوار نے اپنا زیادہ تر وقت غزہ کے نیچے موجود سرنگوں میں گزارا ہے، جن کے دہانوں پر اسرائیلی یرغمالیوں کو بطور انسانی ڈھال استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جس مقام پر یحیی سنوار کی ہلاکت کا امکان ہے وہاں سے کوئی یرغمالی نہیں ملا، جو کہ اپنے آپ میں ایک اہم پیشرفت ہے۔

ان کی موت سے غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کا فوری خاتمہ تو نہیں ہو گا مگر یہ اہم پیش رفت غزہ میں جنگ کے خاتمے کو قدرے قریب لا سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں