واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) یحییٰ سنوار حماس کے وہ لیڈر تھے جنہوں نے گزشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل پر ایک ایسے حملے کا کلیدی منصوبہ تیار کیا تھا جس نے دنیا کو چونکا دیا اور ایسی تباہی کو جنم دیا جو ابھی تک پھیل رہی ہے اور جس کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔
جمعرات کو اسرائیل نے کہا کہ غزہ میں فوجیوں نے سنوار کو ہلاک کر دیا ہے۔ حماس کی جانب سے ان کی موت کی فوری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔
اس پراسرار شخصیت سے جنگی محاذ کے کے دونوں اطراف لوگ خوفزدہ تھے۔ انہوں نے حماس کے مسلح ونگ کے سربراہ محمد ضیف کے ساتھ مل کر جنوبی اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کا حیران کن حملہ تیار کیا تھا۔ اسرائیل نے کہا تھاکہ اس نے جولائی میں جنوبی غزہ میں ہونے والے اس فضائی حملے میں ضیف کو ہلاک کیا جس میں 70 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔
غزہ میں جنگ کی رفتار کے تعین کے لیے 61 سالہ حماس رہنما سے بڑی کوئی بھی شخصیت نہیں تھی۔ جنونی، نظم و ضبط اور آمرانہ مزاج کے حامل، سنوار شاذ و نادر سامنے آنے والے ایک تجربہ کار عسکریت پسند تھے، جنہوں نے اسرائیلی جیلوں میں گزارے برسوں میں عبرانی زبان سیکھی اور اپنے دشمن کا بغور مطالعہ کیا۔
حماس کے جلاوطن رہنما اسماعیل ہنیہ ایران کے دورے کے دوران ایک دھماکے میں مارے گئے جس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا۔ اس کے فورأ بعد سنوار کو حماس کے اعلیٰ رہنما کے طور پر ان کی جگہ لینے کے لیے منتخب کیا گیا، اگرچہ وہ غزہ میں روپوش تھے۔
سنوار، جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے لیے اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں شامل تھے۔ ان کا ایک مقصد اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینیوں کی رہائی قریباً اسی معاہدے کی طرح حاصل کرنا تھا جس کے تحت وہ خود ایک عشرے سے زیادہ عرصہ قبل رہا ہوئے تھے۔
سنوار نے اپنی عسکریت پسند تنظیم حماس کو پورے خطے میں ایران اور اس کے دوسرے اتحادیوں کے قریب لانے پر کام کیا۔ انہوں نے جو جنگ بھڑکائی اس کی لپیٹ میں حزب اللہ بھی آگئی۔ اس کے نتیجے میں لبنان پر اسرائیل کا ایک اور حملہ ہوا، ایران اور اسرائیل کے درمیان پہلی بار فائرنگ کا براہ راست تبادلہ ہوا اور تنازع میں مزید توسیع کے خدشات پیدا ہوئے۔
اسرائیلیوں کے لیے، سنوار ایک ڈراؤنا خواب تھے۔ اسرائیلی فوج کے چیف ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے داعش گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ایک ایسا قاتل قرار دیا جس نے پوری دنیا پر ثابت کر دیا کہ حماس داعش سے بھی بدتر ہے۔
سنوار نے جو ہمیشہ سے ایک باغی تھے، اپنی چند عوامی تقریروں میں سے ایک میں اسرائیل کو اپنے قتل کی دعوت دی اور اپنے غزہ میں ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “میں اس اجلاس کے بعد گھر واپس جاؤں گا۔” اس کے بعد انہوں نے ایسا ہی کیا، لوگوں سے مصافحہ کیا اور سڑکوں پر لوگوں کے ساتھ سیلفیاں لیں۔
فلسطینی ان کا احترام کیوں کرتے تھے؟
فلسطینی ان کا احترام اس لیے کرتے تھے کہ وہ وہ اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے اور انہوں نےبیرون ملک زیادہ آرام سے رہنے والے حماس کے دوسرے رہنماؤں کے برعکس غربت ذدہ غزہ میں اپنا قیام جاری رکھا۔ لیکن غزہ میں جہاں عوامی اختلاف کو دبایا جاتا ہے، ان کے لیے شدید خوف بھی پایا جاتا تھا۔
خان یونس کا قصاب
حماس کی کچھ سیاسی قیادت کی طرف سے پیدا کی گئی میڈیا دوست شخصیات کے برعکس، سنوار نے کبھی کوئی پبلک امیج بنانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے کے مشتبہ فلسطینیوں کے ساتھ اپنے وحشیانہ سلوک کی وجہ سے “خان یونس کے قصاب” کے نام سے معروف تھے۔
سنوار کی پیدائش اور خاندان
سنوار 1962 میں غزہ کے خان یونس پناہ گزین کیمپ میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے تھے جو ان لاکھوں فلسطینیوں میں شامل تھا جنہیں 1948 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نکالا گیا جو اب اسرائیل ہے۔
وہ حماس کے ابتدائی رکن تھے، جو 1987 میں اخوان المسلمون کی فلسطینی شاخ سے اس وقت ابھری تھی جب محصور پٹی پر اسرائیلی فوجی قبضہ تھا۔
سنوار نے گروپ کے بانی شیخ احمد یاسین کو قائل کیا کہ ایک مزاحمتی تنظیم کے طور پر کامیاب ہونے کے لیے حماس کو اسرائیل کے مخبروں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک سیکیورٹی ونگ قائم کیا جو اس وقت مجد کے طور پر معروف تھا، جس کی قیادت سنوار کرتے تھے۔
چار بار عمر قید کی سزائیں
1980 کے عشرےکے آخر میں جب انہیں اسرائیل نے گرفتار کیا تو تفتیش کے دوران انہوں نے اسرائیل کے 12 مشتبہ کارندوں کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ انہیں آخر کار ان جرائم کے لیے جن میں دو اسرائیلی فوجیوں کے اغوا اور ہلاکت کا جرم شامل تھا، چار عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
اسرائیل کی شن بیٹ سیکیورٹی ایجنسی کے محکمہ تحقیقات کے سابق ڈائریکٹر مائیکل کوبی نے، جنہوں نے سنوار سے پوچھ گچھ کی تھی، ان کے اس اعترافی بیان کا ذکر کرتے ہوئے جو انہیں سب سے زیادہ نمایاں لگا، کہا کہ، سنوار نے ایک شخص کو اپنے ہی بھائی کو زندہ دفن کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس پر اسرائیل کے لیے کام کرنے کا شبہ تھا۔
کوبی نے کہا کہ جب انہوں نے ہمیں یہ واقعہ سنایا تو ان کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔
حماس کے قیدیوں کے لیڈر
لیکن ساتھی قیدیوں کے لیے سنوار، ایک کرشماتی، ملنسار اورذہین شخص تھے، جوتمام سیاسی دھڑوں کے قیدیوں کے لیے کشادہ دل تھے۔
وہ حماس کے سینکڑوں قیدیوں کے لیڈر بن گئے۔ انہوں نے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہڑتالیں منظم کیں۔ انہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی معاشرے کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ ساتھی قیدیوں کو کھانا کھلانےاور کنافہ بنانے کے لئے معروف تھے جو پنیر سے تیار کیا جاتا ہے۔
انور یاسین نامی ایک لبنانی شہری نے،جس نے تقریباً 17 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے کہا کہ،”جیل کے اندر ایک لیڈر ہونےکی وجہ سے اسنوار کو مذاکرات اور بات چیت کا تجربہ ملا، اور وہ دشمن کی ذہنیت اور اس پر اثر انداز ہونے کے طریقے کو سمجھ گئے۔”
یاسین نے بتایا کہ سنوار ہمیشہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آئے حالانکہ وہ لبنانی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے، جس کے سیکولر اصول حماس کے نظریے سے متصادم تھے۔
حراست کے دوران ناول کی تصنیف
اپنی حراست کے سالوں کے دوران، سنوار نے 240 صفحات پر مشتمل ایک ناول “تھیسٹل اینڈ دی کلووز” لکھا۔ اس میں 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ سے لے کر 2000 میں دوسرے انتفادہ تک فلسطینی معاشرے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
سنوار نے ناول کے آغاز میں لکھا۔”یہ میری ذاتی کہانی نہیں ہے، اور نہ ہی یہ کسی مخصوص شخص کی کہانی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ تمام واقعات سچے ہیں۔”
سنوار 2008 میں تل ابیب کے ایک ہسپتال میں علاج کے بعد ایک شدید قسم کے دماغی کینسر سے زندہ بچ گئے۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے 2011 میں انہیں تقریباً ایک ہزار دوسرےقیدیوں کے ساتھ ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے رہا کیا تھا، جنہیں حماس نے سرحد پار چھاپے میں پکڑا تھا۔ مہلک حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں قید درجنوں قیدیوں کو رہا کرنے پر نیتن یاہو پر سخت تنقید کی گئی تھی۔
غزہ واپسی کے بعد، سنوار نے حماس کی سیاسی قیادت اور اس کے عسکری ونگ، قسام بریگیڈز کے درمیان قریبی رابطہ قائم کیا۔ وہ اپنی بے رحمی کی وجہ سے بھی معروف ہوئے۔ ان کے بارے میں وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ 2016 میں اقتدار کی اندرونی رسہ کشی میں حماس کے ایک اور اعلیٰ کمانڈر محمود اشتیوی کے قتل کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔ اپنی رہائی کے بعد انہوں نے شادی بھی کی۔
حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ
2017 میں، وہ غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ منتخب ہوئے۔ سنوار نے اسماعیل ہنیہ کے ساتھ مل کر، لبنان کی حزب اللہ سمیت، ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ گروپ کو دوبارہ جوڑنے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے حماس کی عسکری طاقت کو مضبوط بنانے پر بھی توجہ مرکوز کی۔
اکتوبر 2023 کے حملے کو انجام دینے والے فلسطینی عسکریت پسندوں نے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کیا تھا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور تقریباً 250 کو اغوا کر لیا، جس نے اسرائیل کی فوجی اور انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ کو چوکس کر دیا اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو پار پارہ کر دیا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں اس تنازعہ میں 42 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں اور غزہ ایک کھنڈر بن گیا ہے، جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر اور آبادی کا بڑا حصہ فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔