اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی اور سزا معافی کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کو خط لکھ دیا ہے۔
ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی کی درخواست پر سماعت جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے اس پیشرفت سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
یاد رہے کہ مارچ 2003 میں پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ انھیں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 2010 میں امریکہ میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
امریکی محکمۂ انصاف نے انھیں ’القاعدہ کی رکن اور سہولت کار‘ قرار دیا تھا۔
تاہم عافیہ صدیقی کے حامی سزا کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی پاکستان واپسی کی تحریک چلائی جا رہی ہے جس کی سربراہی ان کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
عافیہ صدیقی: امریکہ سے تعلیم یافتہ خاتون جن کا افغانستان پہنچنا آج تک معمہ ہے
امریکہ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے قبل تین بچوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔
تاہم پاکستانی اور امریکی حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
امریکہ نے جولائی 2007 میں ان کی افغانستان سے حراست کو ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کی کوشش کی۔
ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے میں جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا۔