یورپی یونین کے اجلاس میں ساری توجہ تارکین وطن سے نمٹنے پر

برسلز (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے/اے پی/ اے ایف پی) یورپی یونین کے رکن ممالک کے رہنما جمعرات کے روز برسلز میں جمع ہونے شروع ہوئے، جہاں غیر قانونی نقل مکانی سے نمٹنے کی پالیسیوں پر آگے بڑھنا ایجنڈے میں سرفہرست تھا۔

اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں کو ایک دعوتی خط میں یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے لکھا تھا کہ اس اجلاس میں ہجرت کا معاملہ “بات چیت کا ایک اہم نقطہ” ہو گا۔

مشیل نے کہا کہ یہ اجتماع “غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر توجہ مرکوز کرے گا، جس میں ہماری بیرونی سرحدوں پر مضبوط کنٹرول، بہتر شراکت داری اور تارکین وطن کی واپسی پر مضبوط پالیسیاں شامل ہوں گی۔”

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے اس حوالے سے کہا ہے کہ غیر ملکی تارکین وطن سے نمٹنے کے لیے، البانیہ بھیجنے کی جو متنازعہ پالیسی اطالوی حکومت نے اپنائی ہے، یورپی یونین اس سے بھی “سبق حاصل کر سکتی ہے۔”

یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک نے بھی اب تارکین وطن کو تیسرے ممالک میں بھیجنے کے طور طریقوں پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔

غیر قانونی سرحد عبور کرنے کے واقعات میں کمی

سن 2024 میں غیر قانونی طریقے سے سرحدیں عبور کرنے کے واقعات میں 40 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد تقریباً ایک دہائی میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔

سربراہی اجلاس سے قبل ہی اٹلی کی انتہائی دائیں بازو کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے صحافیوں کو بتایا کہ “عملی حل پر کام کرنے کی خواہش ہے۔”

اٹلی نے تارکین وطن سے نمٹنے کے لیے ایک متنازعہ معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت اب کچھ تارکین وطن کو البانیہ میں قائم کیے گئے مراکز بھیجنا شروع کر دیا گیا ہے۔

اس کے تحت سولہ مہاجرین کو بدھ کے روز البانوی بندرگاہ شینگجن منتقل کیا گیا تھا، لیکن ان کی آمد کے چند گھنٹوں بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس میں دو نابالغ تھے اور دو مزید طبی لحاظ سے کمزور تھے، اس لیے انہیں اٹلی دوبارہ واپس کر دیا جائے گا۔

یورپی یونین 27 رکن ممالک پر مشتمل ہے اور تارکین وطن مشرق سے زمینی راستوں اور جنوب سے بحیرہ روم کے راستے سے بلاک میں داخل ہوتے ہیں۔

اٹلی اپنے طویل بحیرہ روم کی ساحلی پٹی اور جزیرے کے علاقوں کے سبب پناہ کے متلاشیوں کی پہلی منزل ہوتی ہے۔

پولینڈ بھی یورپی یونین کا ایک ملک ہے، جہاں تارکین وطن نے زمینی راستے سے داخل ہونے کی کوششیں کی ہیں، جبکہ پولش حکومت بیلاروس اور روس پر انہیں اپنی سرزمین میں دھکیلنے کا الزام لگاتی ہے۔

یورپی یونین کا یہ اجتماع اس وقت ہوا، جب پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے بیلاروس کے راستے سے مزید لوگوں کو آنے سے روکنے کے اقدام کے طور پر سیاسی پناہ کے حق کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

جرمن چانسلر کو سمندر پار مراکز کے بارے میں شکوک

یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں پہنچنے پر جرمن چانسلر اولاف شولس نے یورپی یونین سے باہر تارکین وطن کے لیے مراکز قائم کرنے کے خیال کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ “یہ واضح ہے کہ جب آپ اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں، تو یہ تصورات بہت کم یعنی چھوٹے قطروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حقیقت میں جرمنی جتنے بڑے ملک کے لیے یہ کوئی حل نہیں ہے۔”

انہوں نے بتایا کہ سن 2023 میں تین لاکھ افراد غیر قانونی طور پر جرمنی پہنچے تھے، تو اس صورت میں سمندر پار مرکز میں مہاجرین کو بھیجنا اصل حل نہیں ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی کامیابیوں کے بعد یورپی یونین کا اجلاس

یورپی یونین کا اجلاس ایسے وقت میں ہوا، جب انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں یورپ میں امیگریشن مخالف سخت اقدامات کی پالیسی کے حوالے سے کامیابی حاصل کرتی جا رہی ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے جون میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں ڈرامائی کامیابی حاصل کی، حالانکہ ایوان میں سینٹرسٹ ورکنگ کی اکثریت اب بھی برقرار ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے نیدرلینڈز، جرمنی اور آسٹریا میں ہونے والے مختلف قومی اور علاقائی انتخابات میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ڈچ وزیر اعظم ڈک شوف، جو انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے انچارج ہیں، کا کہنا ہے، “ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں اب ایک مختلف مزاج ہے۔ نیدرلینڈ ایک ایسے منصوبے پر غور کر رہا ہے جس کے تحت مسترد شدہ پناہ کے متلاشیوں کو یوگنڈا بھیجا جائے گا۔”

ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے کہا: “یورپی باشندوں کی ایک بڑی تعداد ہم سے باہر کے ایسے لوگوں کی مدد کر کے تھک چکی ہے، جو جرائم کرتے ہیں۔ کچھ بنیاد پرست بھی ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا، “یہ اس طرح نہیں چل سکتا، کیونکہ اس بات کی ایک حد ہوتی ہے کہ ہم کتنے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔”

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان ایک دائیں بازو کے پاپولسٹ رہنما ہیں، وہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔

انہوں نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، “یورپ کے لوگ اب غیر قانونی ہجرت، ناکام معاشی پالیسیوں اور برسلز میں بیوروکریٹس کی تعداد سے بہت تھک چکے ہیں۔”

ہجرت کے علاوہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے یوکرین پر روس کے حملے اور مشرق وسطیٰ میں مختلف تنازعات جیسے مسائل پر بھی بات چیت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں