نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ کے محکمہ انصاف نے ایک امریکی شہری کے قتل کی سازش کے الزام میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ ’را‘ کے ایک ایجنٹ وکاش یادو کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کر دیا ہے۔
محکمۂ انصاف نے پہلی بار اس طرح کا غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے نہ صرف اس ایجنٹ کا نام اور دفتر کے ایڈریس کی تفصیلات جاری کی ہیں بلکہ ان کی تصویر بھی شائع کی۔
امریکہ نے ابھی تک اس ایجنٹ کا نام مخفی رکھا تھا اور عدالت میں داخل کی گئی ایک فرد جرم کی درخواست میں انھیں صرف انڈین حکومت کا ایک ملازم بتایا گیا تھا اور ان کا نام کوڈ میں ’سی سی 1‘ کے طور پر بتایا گیا تھا۔
یہ وارنٹ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا، جب انڈیا کی تفتیشی ٹیم اس معاملے میں امریکی تفتیش کاروں سے اشتراک کے لیے واشنگٹن کے دورے پر ہے۔
انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کل ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اس معاملے میں امریکہ نے انڈین حکومت کے جس ملازم کا نام لیا، اب وہ سرکاری ملازمت میں نہیں۔
ان کا اشارہ را کے اس مبینہ ایجنٹ کی طرف تھا جسے چند ہفتے قبل خفیہ ایجنسی سے ہٹا دیا گیا تھا تاہم انھوں نے اس کی شناخت یا محکمہ وغیرہ ظاہر نہیں کیا۔
نیو یارک کے ساؤتھ ڈسٹرکٹ کے اٹارنی جنرل کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نیو یارک شہر میں ایک امریکی شہری کے قتل کی (ناکام) سازش کے معاملے میں وکاش یادو عرف وکاس عرف امانت نام کے انڈین حکومت کے ایک ملازم کے خلاف کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے اور منی لانڈرنگ میں ان کے کردار کے حوالے سے مقدمہ درج کیا گیا۔
امریکی تفتیشی ایجسنی ایف بی آئی نے یادو کو مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نیویارک کی ایک عدالت میں وکاش یادو کے خلاف قتل کی سازش کرنے، قتل کروانے کے لیے کرائے کے قاتل کی خدمات حاصل کرنے اور منی لانڈرنگ سے متعلق فرد جرم کی درخواست داخل ہونے کے بعد نیویارک کے سدرن ڈسٹرکٹ کی عدالت نے یادو کے خلاف 10 اکتوبر 2024 کو گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔‘
ایف بی آئی کے نیویارک دفتر نے وکاش یادو کی تصویر جاری کی ہے۔ یادو کی شناخت اور دیگر تفصیلات دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’یادو کا جائے پیدائش پران پورہ، ہریانہ ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش 11 دسمبر 1984 اور یہ 39 برس کے ہیں۔ ان کا قد 5 فٹ 10 انچ سے 6 فٹ 1 انچ کے آس پاس ہے۔ وزن تقریباً 175 پاؤنڈز ہے۔ ان کے بال کالے اور آنکھوں کا رنگ بھورا ہے۔‘
فردِ جرم کی درخواست
ایف بی آئی کے طرف سے جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’اگر آپ کو اس شخص کے بارے میں کوئی اطلاع ہے تو آپ ایف بی آئی کے مقامی دفتر یا قریب ترین امریکی سفارتخانے یا قونصل خانے سے رابطہ قائم کریں۔‘
نیویارک کی عدالت میں داخل کی گئی دوسری فرد جرم میں جو کل جاری کی گئی، اس میں یادو کے خلاف الزامات کی تفصیل دی گئی ہے۔ وکاش یادو پر امریکہ کے شہری اور سکھ علیحدگی پسند لیڈر گر پتونت سنگھ پنون کے قتل کی سازش کرنے اور انھیں قتل کرانے کے لیے انڈیا کے ایک اور شہری نکھل گپتا کے توسط سے کرائے کا قاتل حاصل کرنے کا الزام ہے۔
اس معاملے میں یادو کو نکھل گپتا کے ساتھ شریک ملزم بنایا گیا۔ نکھل گپتا کو ایف بی آئی نے نومبر میں جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ کرائے کا قاتل حاصل کرنے کے لیے ایک ہٹ مین سے رقم کے بارے میں بات چیت کر رہے تھے۔
ہٹ مین جس سے نکھل گپتا، پنون کے قتل کا سودا کر رہے تھے وہ دراصل ہٹ مین کی شکل میں ایف بی آئی کا خفیہ ایجنٹ تھا۔ نکھل گپتا کو قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد امریکہ لايا گیا جہاں انھیں نیویارک کی جیل میں رکھا گیا۔
فردِ جرم میں لکھا ہے کہ ’یادو انڈیا کے شہری ہیں اور وہیں رہتے ہیں۔ وہ انڈین حکومت کی کیبینٹ سکریٹریٹ کے ملازم ہیں جو وزیر اعظم کے دفتر کا حصہ ہے۔‘
واضح رہے کہ ’را‘ ایجنسی کیبینٹ سکریٹریٹ کے تحت کام کرتی ہے۔
فردِ جرم کے مطابق یادو نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ ایک سینیئر فیلڈ افسر ہیں اور ان کی ذمے داریوں میں سکیورٹی، مینیجمنٹ اور خفیہ کارروائی شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے دفتر کا ایڈریس نئی دہلی کے سی جی او کمپلکس میں بتایا، جہاں را کا دفتر واقع ہے۔‘
فرد جرم کے مطابق وکاش یادو انڈیا کے سب سے بڑے نیم فوجی دستے سینٹرل ریزرو پولیس فورس میں اسسٹنٹ کمانڈنٹ کے طور پر کام کر چکے ہیں اور اطلاع کے مطابق انھوں نے مبینہ طور پر کاؤنٹر انٹیلیجنس، جنگی طریقے، ہتھیار چلانے اور پیراٹروپر کی بھی تربیت لے رکھی ہے۔
فرد جرم میں کہا گیا کہ ’وہ انڈیا کے شہری ہیں اور امریکہ میں متعلقہ شخص کو قتل کرانے کی سازش کی ہدایت انڈیا سے دے رہے تھے۔‘
فرد جرم کے مطابق یادو نے نکھل گپتا کو صرف پنوں کو نہیں بلکہ ایک اور شخص کو بھی قتل کروانے کی ہدایت کی تھی۔
ایف بی آئی نے 11 مہینے پہلے نکھل گپتا کی گرفتاری کے بعد جب اس مبینہ سازش کا انکشاف کیا تھا تو اس وقت امریکی انتطامیہ نے انڈیا سے بہت سخت لفظوں میں کہا تھا کہ اس سازش میں انڈین حکومت کا جو بھی ملازم شامل ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
یہ بھی کہا گیا تھا کہ امریکہ اپنی سرزمین پر اپنے کسی شہری کو قتل کرنے کی غیر ملکی سازش کو بہت سنگین تصور کرتا ہے اوراس کے مرتکبین کو عدالت کا سامنا کرنا ہو گا۔
نکھل گپتا کی گرفتاری سے محض دو مہینے پہلے ستمبر 2023 میں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ اس کے ایک شہری اور سرکردہ سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نیجر کے قتل میں انڈین حکومت کے ایجنٹ ملوث ہیں۔
انڈیا نے اس بیان کے بعد کینیڈا کے خلاف سخت بیانات دیے تھے اور ان الزامات کو قطعی طور پر مسترد کر دیا تھا۔ اس وقت سے انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
اس کے برعکس امریکی سکھ علیحدگی پسند رہنما گرپتونت سنگھ کے قتل کی ناکام کوشش میں انڈیا کا ہاتھ ہونے کے الزام کے باوجود انڈیا کا رویہ امریکہ کے سلسلے میں بہت نرم اور مصالحانہ رہا۔
انڈین حکومت نے صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر ایک تفتیشی کمیٹی قائم کی اور امریکی انتظامیہ کو یہ یقین دلایا کہ وہ مطلوبہ ایجنٹ کے خلاف ضروری کارروائی کرے گی۔
بعض اطلاعات میں یہ بھی بتایا گیا کہ وکاش یادو کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
انڈیا نے کیا ردِعمل دیا؟
انڈیا کی تفتیشی کمیٹی کے ارکان گذشتہ منگل کو واشنگٹن گئے تھے۔ امریکی دفتر خارجہ کے میتیھو ملر نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں انڈین تفتیشی کمیٹی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ امریکہ اس سلسلے میں انڈیا کے اشتراک سے مطمئن ہے۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’انڈین تفتیشی ٹیم نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف کی فرد جرم کی درخواست میں جس شخص کا نام لیا گیا، اسے انڈین حکومت کی ملازمت سے ہٹا دیا گیا۔‘
ان کے اس بیان سے انڈیا میں عام تاثر یہ تھا امریکی حکومت انڈیا کے اقدام سے مطمئن ہے اور اسے امریکہ سے کینیڈا جیسے ٹکراؤ کا سامنا نہیں لیکن جس طرح اچانک امریکی محمکہ انصاف نے اس معاملے میں ملوث خفیہ سروس را کے ایجنٹ کی شناخت اور اس کی تصویر وغیرہ کی تفصیلات جاری کی ہیں وہ انڈین حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔
ابھی تک انڈیا کی جانب سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ انڈیا کے ٹیلی ویژن چینلز نے گذشتہ دو روز سے کینیڈا سے انڈیا کے ہائی کمشنر اور پانچ دیگر سفارت کاروں کو مبینہ طور پر اقدام قتل، جبری وصولی اور کینیڈین شہریوں کو جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے ڈرانے اور دھمکانے جیسے الزامات میں ملک سے نکالے جانے کے بعد وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔
لیکن ان چینلز نے امریکہ کی جانب سے را کے ایک ایجنٹ کو مطلوبہ ملزم قرار دینے اور اس کی پوری شناخت ظاہر کیے جانے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے لکھا کہ امریکی اہلکاروں کو یقین ہے کہ 39 سالہ وکاش یادو اس وقت انڈیا میں ہی ہیں لیکن وہ کہاں ہیں اس کے بارے میں پتہ نہیں چل سکا۔
اخبار نے امریکی حکام کے حوالے سے لکھا کہ ’یہ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ مقدمہ چلانے کے لیے انھیں انڈیا سے امریکہ لانے کی کوشش کرے گا۔‘
اخبار نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل میتھیو جی اولسین کے حوالے سے لکھا کہ ’آج جو فردِ جرم داخل کی گئی، وہ امریکہ میں آباد غیر ملکی نژاد لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے جان لیوا سازشوں اور تشدد اور جبر کی غیر ملکی سرگرمیوں میں اضافے کا ایک سنگین ثبوت ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ کا محکمہ انصاف اس طرح کی سازشوں کو ناکام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے اور وہ ان جرائم کے مرتکبین کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں بھی رہتا ہو۔‘
واشنگٹن پوسٹ نے اس سے قبل ایک مضمون میں لکھا تھا کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غالباً وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں کی ایما پر سکھ علیحدگی پسند لیڈر گرپتونت سنگھ کے قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ٹارگٹ کلنگ ہماری پالیسی نہیں۔‘
امریکی میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں نے واشنگٹن سے خبر دی ہے کہ تقریباً سوا برس قبل جب ایف بی آئی ایجنٹس نے ’سکھ فار جسٹس‘ تنظیم کے علمبردار علیحدگی پسند سکھ رہنما گر پتونت سنگھ کے قتل کی سازش کو ناکام کیا تھا، اس وقت سے امریکی حکام وکاش یادو کی شناخت ظاہر کرنے اور ان کے خلاف فرد جرم داخل کرنے سے گریز کر رہے تھے تاکہ انڈیا سے تعلقات میں تلخی نہ پیدا ہو۔
وہ یہ امید کر رہے تھے کہ انڈیا اس معاملے کی سنگینی کے پیش نظر اس کی گہرائی اور سنجیدگی سے تفتیش کرے گا اور مطلوبہ قدم اٹھائے گا لیکن اب اس مرحلے پر وکاش یادو کی پوری تفصیل جاری کرنے اور ان کی شناخت ظاہر کرنے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ ’صدر بائڈن کی انتظامیہ کے بعض اہلکار انڈیا کی تفتیش سے مایوس ہو رہے تھے۔‘
’انھوں نے غیر سرکاری طور پر کئی بار اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا تفتیش کے نام پر محض رسم ادائیگی کر رہا ہے۔ اس سے کچھ نہیں نکلے گا۔‘