غزہ + تل ابیب (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے/ ڈی پی اے) اسرائیل کی جانب سے یحییٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق کرنے کے ایک روز بعد حماس نے بھی سنوار کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعے کے روز ایک ویڈیو پیغام میں یحییٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ سنوار لڑائی کے دوران مارے گئے۔
قطر میں موجود حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کیا جائے گا، جب تک اسرائیل غزہ کے خلاف اپنی جنگ ختم نہیں کر دیتا، علاقے سے انخلا نہیں کرتا اور جیلوں میں قید فلسطینیوں کو رہا نہیں کر دیتا۔
اس ویڈیو بیان میں الحیہ نے کہا، ’’یرغمالی تب تک واپس نہیں جائیں گے، جب تک غزہ میں ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت ختم نہیں ہوتی۔‘‘
خیال رہے کہ السنوار کو جمعرات کو غزہ میں اسرائیلی افواج کی ایک معمول کی گشت کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج 7 اکتوبر کے حملوں کے منصوبہ ساز کو ایک سال سے تلاش کر رہی تھی جو غزہ میں روپوش ہو چکے تھے۔
سنوار اسرائیلی سپیشل فورسز کی جانب سے کیے گئے ایک سوچے سمجھے آپریشن میں ہلاک نہیں ہوئے بلکہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی فورسز سے اچانک تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
جائے وقوعہ پر بنائی گئی ایک تصویر میں جنگی لباس میں ملبوس سنوار کو ایک تباہ حال عمارت کے ملبے میں مردہ حالت میں دکھایا گیا۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق ایک موقع پر تو اسرائیلی فوج یحییٰ السنوار کے اس قدر قریب پہنچ چکی تھی کہ جب فورسز سرنگ میں پہنچیں تو سنوار کی کافی بھی گرم تھی اور وہ اس قدر جلدی میں فرار ہوئے کہ 10 لاکھ ڈالرز چھوڑ کر چلے گئے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اپنے فوجیوں کی تعریف کی اور واضح کیا کہ سنوار کی ہلاکت کتنی ہی بڑی فتح ہو مگر ’یہ جنگ کا خاتمہ نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج ہم نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ہمیں نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ آج ہم نے ایک بار پھر دنیا کو برائی پر اچھائی کی جیت دکھا دی۔‘
’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ مشکل ہے اور اس کی ہمیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔‘
7 اکتوبر 2023 کو سنوار اور اُن کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملے کیے جو اسرائیل کی بدترین ناکامی ثابت ہوئے۔ یہ صدمہ آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔
1200 اسرائیلیوں کی ہلاکت، درجنوں کا یرغمال بنائے جانا اور اس کے بعد ہونے والے جشن نے کئی اسرائیلیوں کے لیے ہولوکاسٹ کی یاد تازہ کر دی تھی۔
باقی 101 یرغمالی جن کے بارے میں اسرائیل کا خیال ہے کہ اُن میں سے آدھے پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں، اُن کے اہلخانہ تل ابیب کے اُس چوک میں جمع ہوئے جہاں وہ ایک سال سے جمع ہو رہے ہیں اور اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے لوگوں کو وطن واپس لانے کے لیے ایک نیا مذاکراتی دور شروع کرے۔
اسرائیل نے حماس کے لیڈر یحیٰ سنوار کو ہلاک کر کے عسکریت پسند گروپ کو ایک بڑا دھچکا پہنچانے کے بعد اسکے خاتمے کی اپنی ایک سالہ جنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے جمعے کے روز غزہ پر متعدد شدید حملے کیے۔
ادھر اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق سنوار کی ہلاکت سے غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ جمعرات کو رات بھر اور جمعے کو علی الصبح تک متعدد حملوں نے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔
غزہ کے شہری دفاع کے ادارے کے مطابق امدادی کارکنوں نے شمال میں ایک گھر پر علی الصبح کے ایک حملے کے بعد گھر کے ملبے سے تین فلسطینی بچوں کی لاشیں نکالیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ جبالیہ میں اپنی کارروائی آگے بڑھا رہی ہے، جو حالیہ ہفتوں میں لڑائی کا ایک مرکز تھا اور جہاں دو ہسپتالوں کے مطابق جمعرات کو کیے گئے حملوں میں کم از کم 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق جسے اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہے، اس موسم سرما میں غزہ کے لگ بھگ 3 لاکھ 45 ہزار شہریوں کو خوفناک سطح کی بھوک کا سامنا ہورہا ہے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ ہرزی حلیوی نے عزم ظاہر کیا ہے کہ لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بقول انکے، سات اکتوبر کے قتل عام میں ملوث تمام دہشت گردوں کو پکڑ نہیں لیتے اور تمام یرغمالوں کو گھر واپس نہیں لے آتے۔
جنوبی لبنان میں اسرائیلی حملے
جمعرات کو اسرائیل نے جنوبی لبنان کے شہر طائرے میں حملے کیے جہاں عسکریت پسند گروپ اور اس کے اتحادیوں کا بھر پور اثر و رسوخ ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ جنوبی لبنان میں لڑائی میں اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوئے ہیں جس کے بعد گزشتہ ماہ لبنان پر اسرائیل نکے حملوں کے بعد سے، فوجیوں کی اعلان کردہ اموات کی تعداد 19 ہو گئی ہے۔
لبنانی وزارت صحت کے اعدادو شمار کی اے ایف پی کی گنتی کے مطابق گزشتہ ستمبر کے اواخر سے جب سے لبنان میں جنگ شروع ہوئی ہے، کم از کم 1418 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اصل ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔
یمن، عراق اور شام میں موجود گروپس سمیت ایران سے منسلک مسلح گروپ اس جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔
ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر ایک میزائل حملہ کیا تھا جس کے لیے اسرائیل نے جوابی کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں تہران کے مشن نے جمعرات کو کہا کہ سنوار کی ہلاکت کے نتیجے میں، خطے میں مزاحمت میں اضافہ ہوگا۔
سنوار کی موت کے بعد حماس کی حکمت عملی
حزب اللہ نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ میں ایک نیا مرحلہ شروع کر رہی ہے اور یہ کہ اس نے پہلی بار فوجیوں کے خلاف ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے گائیڈڈ میزائل استعمال کیے ہیں۔
اب جب غزہ میں ایک سال سے زیادہ عرصے کی جنگ سے حماس پہلے ہی کمزور ہو چکی ہے، سنوار کی موت تنظیم کےلیے ایک شدید دھچکا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اب اسکی اپنی اسٹریٹیجی میں کوئی تبدیلی واقع ہو گی۔
حزب اللہ نے جمعرات کو دیر گئے کہا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ میں ایک نیا مرحلہ شروع کر رہاہے اور یہ کہ اس نے پہلی بار اسرائیلی فوجیوں کے خلاف ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے گائیڈڈ میزائل استعمال کیے ہیں۔
یہ بھی واضح نہیں ہوا ہے کہ آیا ان کے جانشین کو قطر میں، جہاں ایک عرصے سے حماس کی سیاسی قیادت مقیم ہے، یا لڑائی کے مرکز غزہ میں نامزد کیا جائے گا۔
سنوار کی ہلاکت کا اسرائیل اور امریکہ کا خیر مقدم
سنوار کی ہلاکت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے نے جس جنگ کو جنم دیا وہ ختم نہیں ہوئی ہے، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ انجام کی شروعات، ہے۔
انہوں نے اسرائیلی تاریخ کے مہلک ترین حملے کے سرغنہ سنواری کی موت کو حماس کی شر انگیز حکمرانی کے زوال کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔
جولائی میں حماس کے سیاسی لیڈر اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد غزہ میں حماس کے سربراہ سنوار حملے کے وقت تک عسکریت پسند گروپ کے ایک مکمل لیڈر بن چکے تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے، جن کی حکومت اسرائیل کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرتی ہے، کہا، ‘‘یہ اسرائیل کے لیے، امریکہ کےلیے اور دنیا کےلیے ایک اچھا دن ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس دن کے لئے، جب غزہ حماس کے زیر اقتدار نہ ہو اور اس سیاسی تصفیئے کے لیے ایک موقع ہے جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو ایک بہتر مستقبل فراہم کرسکے۔
حماس اور حزب اللہ کو امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دوسرے ملک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
حماس کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں 1206 لوگ ہلاک ہوئے تھے جن کی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
حماس کو کچلنے اور عسکریت پسندوں کے پاس یرغمال اسرائیلیوں کو واپس لانے کی اسرائیلی مہم میں حماس کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں 42 ہزار 438 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو مستند سمجھتی ہے۔
اب جب غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، اسرائیل کو جنگ کےاپنے طریق کار پر تنقید کا سامنا ہوا ہے جس میں امریکہ کی تنقید شامل ہے۔
سنوار کی موت پر اسرائیلی شہریوں کا جشن، یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ
غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کی ہلاکت کے بعد جمعرات کی شب اسرائیل بھر میں جشن منایا گیا۔
ایک ویڈیو میں جنوبی قصبے اشدود کے رہائشی علاقے میں لوگوں کو تالیاں بجا کر جشن مناتے دیکھا گیا جب کہ دوسری ویڈیو میں ساحل سمندر پر موجود لوگ لاؤڈ اسپیکر سے کیے جانے والے اعلان کے جواب میں خوشیاں مناتے دیکھے گئے۔
غزہ میں قید سو سے زائد یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے بھی اس خبر کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔
حماس کی قید میں موجود ایک یرغمالی کی ماں نے یروشلم پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے بڑے پیمانے پر قتل کرنے والے سنوار کے ساتھ حساب چکتا کر دیا ۔ ۔ ۔ لیکن کامیابی اور مکمل فتح تب ہو گی جب ہم (یرغمالیوں کی) زندگیاں بچائیں گے اور انہیں زندہ گھر واپس لائیں گے۔‘‘
سوشل میڈیا پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے ایک پوسٹ میں لکھا، ’’یرغمالیوں کو دفن مت کریں۔ اب مذاکرات کاروں اور اسرائیلی عوام کے پاس جائیں اور ایک نیا اسرائیلی لائحہ عمل پیش کریں۔‘‘