کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) “ہمیں ڈر کے مارے رات کو نیند نہیں آتی ہر وقت یہ خوف سوار رہتا ہے کہ کہیں مشتعل لوگ ہمارے گھر کا دروازہ توڑ کر یا دیواریں پھلانگ کر اندر نہ آجائیں۔”
یہ کہنا ہے 25 سالہ راشدہ (فرضی نام) کا جو احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے ایک گاؤں گابر مسن میں رہائش پذیر احمدی کمیونٹی ان دنوں عدم تحفظ کی شکایات کر رہی ہے۔ 15 اکتوبر کو ایک احمدی فرد کو مشتعل ہجوم نے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے یہ الزام لگایا تھا کہ ملزم نے اذان دی ہے جس پر انھوں نے اسے مارا پیٹا اور پھر پولیس اسٹیشن لے گئے جہاں پولیس نے اس شخص پر ایف آئی آر درج کر کے لاک اپ منتقل کر دیا۔
ذرائع کے مطابق گرفتار ہونے والا شخص گابر مسن کا رہائشی ہے۔ لیکن وہ لاڑکانہ شہر میں رہتا ہے۔ گاؤں کے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والا شخص اس گاؤں میں قائم احمدیوں کی عبادت گاہ کا رُکن ہے جو کچھ ماہ قبل اذان دینے کے بعد گاؤں سے فرار ہو گیا تھا جسے اب گرفتار کیا گیا ہے۔
معاملہ ہے کیا؟
لاڑکانہ کے گاؤں گابر مسن میں احمدی کمیونٹی کے لگ بھگ 15 سے 20 مکانات ہیں۔
یہ لوگ گزشتہ پانچ نسلوں سے یہاں پر آباد ہیں۔ ان کے گھر نہ صرف ذاتی ہیں بلکہ ان کے آباؤ اجداد کی زمینیں بھی اسی گاؤں میں ہیں۔
گاؤں کے ایک رہائشی رشید احمد (فرضی نام) کراچی میں مقیم ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہم باپ دادا کے زمانے سے یہاں رہ رہے ہیں اس گاؤں میں بسنے والے تمام لوگوں کی خوشی غمی میں ہمارے لوگ برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ہمارا اپنے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ روز کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا ہے ہم نے کبھی نہیں چھپایا کہ ہم جماعتِ احمدیہ سے ہیں یہ بات پورا گاؤں جانتا ہے۔
اُن کے بقول اس کے باوجود کبھی تعلق اور بھائی چارے میں فرق نہیں آیا، لیکن گزشتہ ڈیڑھ دو برسوں سے ہمارے لیے مشکلات میں اضافہ کیا جانے لگا ہے۔ اسی گاؤں کا ایک معلم جو ہمارے سامنے ہی بڑا ہوا ہے اس نے ہمارے خلاف لوگوں کو اکسایا کہ وہ ہم سے تعلق ختم کر دیں کیوں کہ وہ ہمیں کافر سمجھتا ہے۔ اسے ہماری عبادت گاہ پر اعتراض تھا کہ اس پر مینار بنے ہیں ہم نے اسے سمجھایا کہ یہ عبادت گاہ تو 1960 کی بنی ہوئی ہے۔
رشید احمد کا مزید کہنا تھا کہ ان کا اپنے گاؤں آنا جانا لگا رہتا ہے ان کا خاندان اب بھی اسی گاؤں میں رہائش پذیر ہے۔ لیکن رواں برس جولائی میں ان کی کمیونٹی کے افراد پر کٹنے والی مبینہ جھوٹی ایف آئی آر اور گرفتاریوں کے بعد سے ان سمیت کمیونٹی کے تمام مرد روپوش ہیں یا محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں۔ کچھ گھرانے کراچی اور حیدر آباد چلے گئے ہیں۔
ایف آئی آر کیوں ہوئی؟
گاؤں کے ایک فرد نے نام نہ بتانے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ معاملہ احمدیوں کی عبادت گاہ سے زور پکڑ گیا تھا۔ چھ ستمبر کو اس عمارت کو سیل کیا گیا۔
اکتیس جولائی کو عدالت کے حکم پر ایف آئی آر کاٹی گئی تھی جس میں الزام تھا کہ یہ لوگ اپنے مذہبی عقائد کا پرچار کر رہے ہیں اور شعائر اسلام کا استعمال کر رہے ہیں۔ ایف آئی ار کے بعد چھ افراد کو گرفتار کیا جانا تھا جس میں سے چار افراد گرفتار ہو سکے جب کہ دو ملزمان مفرور ہیں۔
اس فرد کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے کسی بھی فرد کو انھوں نے ایسا کرتے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن انھیں ایک گروہ نے یہ بتایا تھا کہ جلد ہی ان کے خلاف کوئی اقدام اٹھایا جائے گا جس کے بعد یہ واقعہ ہوا اور ان کی عبادت گاہ کو بھی سیل کر دیا گیا جو یہاں عرصہ دراز سے قائم ہے۔
گزشتہ 25 برسوں سے آسٹریلیا میں مقیم اسی گاؤں کے فرد حفاظت علی مسن اپنے گاؤں میں پیدا ہونے والی کشیدگی پر تشویش کا شکار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا اسے سمجھا جا رہا ہے۔
اُن کے بقول “ہمارے وہ لوگ جو لگ بھگ ایک صدی سے اس زمین پر آباد ہیں ان پر زندگی تنگ کی جا رہی ہے تاکہ وہ اپنا گھر بار آبائی زمینیں سب چھوڑ کر چلے جائیں۔”
اُن کے بقول اصل ہدف ہی یہی ہے کہ ہماری جائیدادوں پر قبضہ کیا جائے۔ حفاظت علی نے الزام لگایا کہ اس کے پیچھے دو مذہبی جماعتوں کے کارکنان شامل ہیں جو ہم سے عبادت گاہ کی زمین لینے اور گھروں کو خالی کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
حفاظت علی کا مزید کہنا تھا کہ “جس عبادت گاہ کو سیل کیا گیا ہے میرے والد اس کے مولوی اور منتظم تھے جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی تدفین مقامی قبرستان میں نہیں کرنے دی گئی جس کے بعد طے پایا کہ انھوں نے کمیونٹی اور اس گاؤں کی بہت خدمت کی ہے تو انھیں مسجد کے احاطے میں دفن کیا جائے۔ میرے والد کی قبر وہیں ہے جب سے اسے سیل کیا گیا ہے ہم دعا پڑھنے بھی نہیں جا سکتے۔”
گاؤں کے کچھ افراد اور متاثرہ کمیونٹی ان تمام حالات کا ذمہ دار نوید احمد مسن کو قرار دیتی ہے جو ایک پرائمری اسکول میں ٹیچر اور اس گاؤں کے رہائشی ہیں۔
‘سن 2019 کے بعد سے میری سوچ بدل گئی’
وائس آف امریکہ نے نوید احمد سے رابطہ کیا اور ان پر لگے الزامات کے حوالے سے دریافت کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ احمدیوں پر کٹنے والی ایف آئی آر اور گرفتاریوں میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔
اُن کے بقول 31 جولائی کو سیشن کورٹ لاڑکانہ کے حکم پر ایف آئی آر ہوئی اس کیس کو کرنے والے عبدالرزاق ابڑو تھے جنھیں یہ اعتراض تھا کہ جب آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے تو وہ اسلامی شعائر کا استعمال کیسے کرسکتے ہیں۔
انھوں نے 2013 میں غیر قانونی عبادت گاہ بنائی جس پر مینار بنائے گئے جو ان پر جائز نہیں تو یہ اعتراض غلط بھی نہیں تھا تب ہی تو ان گرفتار افراد کی ضمانتیں خارج ہوئیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کا آئین احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے تاہم احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں۔
نوید احمد کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خاندان کی اس کمیونٹی کے لوگوں سے دور کی رشتے داری ہے مذہب کی تبدیلی کے باوجود ان کا بھی ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ لیکن 2019 میں جب انھوں نے سندھ یونی ورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا تو ان کے خیالات تبدیل ہو گئے۔
نوید کے مطابق “میں نے 2021 میں سب سے پہلے تو ان کی قربانی بند کروائی کیوں کہ جب یہ غیر مسلم ہیں تو قربانی کیسے کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل یہ کھلے عام قربانی کرتے تھے جب میں نے مخالفت شروع کی تو بھی یہ باز نہیں آئے یہاں تک کہ 2022 کے سیلاب میں جب پورا سندھ اس سے متاثر تھا، ان کی کمیونٹی کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے یہاں لوگوں کی مدد کی جس میں امداد کی آڑ میں انھوں نے یہاں کے لوگوں کو اپنے مذہب میں آنے کی دعوت بھی دی۔”
نوید احمد نے اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے احمدی کمیونٹی کے خلاف نہ صرف اماموں بلکہ گاؤں کے لوگوں کو بھی اس بات پر قائل کیا کہ احمدی کمیونٹی کو غیر مسلموں کی طرح دیکھا جائے۔
نوید کے مطابق 1993 میں اس کمیونٹی نے ایک مردے کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا تھا تو ان کے خاندان نے اس پر مذمت کی یہاں تک کہ مقامی انتظامیہ کو اس معاملے کو حل کرنا پڑا جس کے بعد انھوں نے اس مردے کو قبر سے نکال کر کہیں اور دفن کیا۔ تب سے ان کا قبرستان ہم سے الگ ہے۔ تاہم انھوں نے اس بات کی تردید کی گرفتاریوں کے بعد سے یہاں بسے خاندان اور ان کی عورتوں بچوں کو مشتعل افراد کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔
‘رویے بدل گئے ہیں لیکن کچھ لوگ چھپ کر مدد کرتے ہیں’
بائیس سالہ رخسانہ (فرضی نام) چھ ماہ کی حاملہ ہیں گاؤں میں جاری کشیدگی اور ان کے شوہر کی روپوشی انھیں پریشان کیے ہوئے ہیں۔ ان کے مکان سے چند قدم کے فاصلے پر ان کے والدین کا گھر ہے۔ لیکن وہ ڈر کے مارے وہاں بھی جانے سے گریزاں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رُخسانہ کا کہنا تھا کہ وہ تین ماہ سے ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے نہیں جا سکیں وہ اپنی کیفیت انھیں فون پر بتا دیتی ہیں جس کے بعد ڈاکٹر اگر کوئی دوا لکھ دے تو وہ پڑوسیوں کی مدد سے منگوا لیتی ہیں۔
ان حالات کے بعد سے کئی دہائیوں پرانے تعلقات میں بدلاؤ تو آیا ہے۔ لیکن اب بھی پڑوس کے کچھ لوگ ہماری نہ صرف مدد کرتے ہیں بلکہ مشتعل ہجوم یا پولیس کے آنے پر ہمیں آگاہ کر دیتے ہیں۔
گرفتار ہونے والوں میں راشدہ کے والد بھی شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے راشدہ کا کہنا تھا کہ “میرے والد دل کے مریض ہیں وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے اس لیے گھر پر ہی رہتے تھے میرے تینوں بھائیوں میں سے ایک بیرون ملک مقیم ہے ایک کراچی میں ملازمت کرتا ہے جب کہ تیسرا بھائی جس کی شادی کو ایک سال ہوا ہے وہ ابا کی گرفتاری کے بعد سے روپوش ہے۔ اب گھر میں میری والدہ، میں اور میری بھابی ہی موجود ہیں۔”
راشدہ کا مزید کہنا تھا کہ کشیدگی کے بعد سے ہم اپنے گھر کے مردوں کے بغیر رہ رہے ہیں۔ ہمارے مرد محفوظ رہیں اس لیے ہم یہ دکھ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ہمارا گھر سے نکلنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے گھر میں ضرورت کا راشن بھی نہیں ہے پڑوس کے لوگ چھپ کر ہمارے لیے کھانے اور راشن کا بندوبست کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ میں کالج بھی نہیں جا پا رہی۔
اسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک فرد نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ جب سے معاملات بگڑے ہیں ہمارے بچے گھروں میں محصور ہیں وہ اسکول بھی نہیں جا پا رہے اسی طرح ہماری کمیونٹی کی تین ٹیچرز کو اسکول نے یہ کہہ کر فارغ کیا کہ ہم پر بہت دباؤ ہے آپ کہیں اور نوکری کر لیں۔
اُن کے بقول اگر ہمارے گھر کی خواتین باہر نکلیں بھی تو محلے میں موجود وہ افراد جنھیں ہم سے نفرت پر اکسایا گیا ہے وہ ہم پر آوازیں کستے ہیں، کافر کے نعرے لگاتے ہیں لعنت ملامت کرتے ہیں اب اس گاؤں میں ایسے افراد کا آنا جانا بھی ہو گیا ہے جو یہاں کے نہیں وہ آتے ہیں اور ہمارے گھروں پر پتھراؤ بھی کرتے ہیں۔
حفاظت علی کے مطابق، ان کی دو بہنیں جو سرکاری اسکول میں ٹیچرز ہیں ان پر بھی دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنی نوکری چھوڑ دیں جس کے لیے آئے روز انھیں اسکول انتظامیہ کہتی رہتی ہے۔
اس سوال پر کہ ان حالات میں گاؤں کے کسی بڑے یا با اثر فرد نے متاثرہ کمیونٹی اور دوسری پارٹی کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کی تو اس پر نوید احمد کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں میں کوئی سرداری نظام نہیں ہے ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔
احمدی کمیونٹی کے بچوں کا اسکول نہ جانا اور اس کشیدگی کے بعد نجی اسکولوں میں پڑھانے والی خواتین ٹیچرز کے نوکری سے برخاست ہو جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے بچوں کو مسلمان ظاہر کر کے اسکولوں میں داخل کروا رکھا ہے۔
ان کے مرد ہوں یا خواتین انھوں نے بھی نجی اور سرکاری نوکریاں مسلمان کوٹے پر حاصل کی ہیں۔ ہم اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے تعلقہ اور ضلعی افسران کو درخواست دے چکے ہیں کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کریں۔
‘کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں’
رشید احمد کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے خلاف بڑھنے والی نفرت اور نا انصافی پر ہر دروازے پر دستک دی ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کے لیول پر درخواستیں دی کہ ہم پر ہونے والے ظلم کو روکا جائے۔ لیکن مقامی پولیس الٹا ہمیں کہتی ہے کہ آپ ان لوگوں (مذہبی جماعتوں) کو کیوں تنگ کرتے ہو؟
اُن کے بقول ہم لاڑکانہ شہر کے گاؤں کے باسی ہیں جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو جمہوریت، برابری، انسانی حقوق کی بات کرتی ہے لیکن انھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے صوبے اور لاڑکانہ میں مقیم لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟
لاڑکانہ کے ایس ایس پی روحل کھوسو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار ہونے والے چاروں ملزماں پر ایف آئی آر درج تھی جس پر انھیں گرفتار کیا گیا۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی عبادت گاہ کو مسجد کی طرز پر بنایا تھا جس پر کلمہ لکھا ہے اور مینار قائم ہیں۔
تاہم انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اب گاؤں میں حالات بہتر ہیں اس سے دو ماہ قبل یہاں کشیدگی ضرور رہی۔ لیکن اب ایسا نہیں نہ ہی ہمارے پاس متاثرہ خاندانوں کی جانب سے کوئی شکایت آئی ہے۔
حکومتِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک بھر میں بسنے والی اقلیتوں کو تمام حقوق حاصل ہیں اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نامناسب سلوک کی اجازت نہیں دی جاتی۔