پیرس (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) یوکرین میں لڑائی سے فرار ہونے والے چھ روسی فوجیوں کو فرانس میں وقتی پناہ مل گئی ہے اور انہیں امید ہے کہ وہاں انہیں مستقل سیاسی پناہ حاصل ہو جائے گی۔ اب وہ فرانس میں اپنے آپ کو آزاد اور محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
یہ تمام روسی فوجی قازقستان کے راستے سے فرانس پہنچے ہیں، جنہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ انہیں امید ہے کہ ان کے ان اقدامات سے دوسرے روسی فوجیوں کو بھی ماسکو کے حکام کی مخالفت کرنے اور جنگ سے فرار ہونے کی ترغیب ملے گی۔
ایک فوجی الیگزینڈر، جنہوں نے غیر دانستہ طور پر یوکرین کے خلاف روسی جنگ میں حصہ لیا تھا، نے کہا، “شاید میری مثال سے متاثر ہو اور لوگ بھی فوج ترک کرنے بارے میں غور کریں۔” 26 برس کے نوجوان نے مزید کہا، “محاذ پر فوج جتنی کمزور ہو گی، اتنے ہی کم لوگ ہوں گے، جنگ بھی اتنی ہی جلدی ختم ہو سکتی ہے اور یوکرین کی فتح ہو گی۔”
پچھلے کچھ مہینوں کے دوران فرانس پہنچنے والے ایسے لوگوں میں بیشتر وہ ہیں، جو محاذ پر بھیجے جانے سے پہلے ہی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ البتہ الیگزینڈر کو یوکرین لڑنے کے لیے بھیج دیا گیا، تاہم آخر کار وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
پیرس میں قائم ایک انجمن روسی لبریٹس سمیت انسانی حقوق کے گروپوں کی حمایت کی بدولت فرار ہونے والے چھ روسی فوجی فرانس پہنچے۔ اس میں کچھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچے ہیں، اس طرح کل 10 لوگوں کو فرانس میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔
شمال مغربی فرانسیسی شہر کین میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے الیگزینڈر نے کہا کہ جب فروری 2022 میں روس کا حملہ شروع ہوا تو وہ صدمے میں تھے۔
وہ “فوجی مشقوں” کے لیے اپنی یونٹ کے ساتھ روس کے زیر قبضہ کریمیا گئے تھے اور پھر اچانک ایک قافلے کے ساتھ یوکرین کی سرحد عبور کرنے کے بعد انہوں نے خود کو “کسی اور ملک” میں پایا۔
انہوں نے بتایا کہ “ہمارے کمانڈروں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ دس دنوں میں ختم ہو جائے گا۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ لڑائی میں ملوث نہیں تھے اور بڑے پیمانے پر مواصلات سے نمٹنے کا کام کر رہے تھے۔
فرار ہونے والے ایک اور فوجی 27 سالہ سرگئی کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ روسی فوجی یہ جان لیں کہ “ہمیشہ” انتخاب کرنے اور “ہمیشہ اپنے ہتھیار ڈالنے کا امکان ہوتا ہے، تاکہ دوسرے لوگوں کو مارنے اور اس جنگ میں شرکت کو ختم کیا جا سکے۔”
واضح رہے کہ جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا، تو فرانس سمیت مغربی ممالک نے ہزاروں ایسے روسی مخالفین کا خیر مقدم کیا تھا۔
تاہم، کارکنوں کا کہنا ہے کہ یورپ کی حکومتیں روسی فوجیوں کا استقبال کرنے میں احتیاط سے کام لیتی رہی ہیں، کیونکہ انہیں سکیورٹی رسک کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور وہ جنگی جرائم کے مرتکب بھی ہو سکتے ہیں۔
روسی لبریٹس کی سربراہ اولگا پروکوپیوا نے فرانس کے “بے مثال” اقدام کو سراہا اور دیگر یورپی ممالک سے بھی اس کی پیروی کرنے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “ہمیں بات چیت میں ایک سال کا عرصہ لگا ہے اور ہم نے اس سلسلے میں بہت سی چیزوں کی کوشش کی۔”
پروکوپیوا نے بتایا کہ تمام فرار ہونے والوں کی اچھی طرح سے چھان بین کی گئی تھی اور ان کی تنظیم قازقستان میں رہنے والے ایسے مزید افراد کے رابطے میں ہے۔
یوکرین کے خلاف روسی جنگ میں حصہ لینے یا یوکرین میں لڑنے سے انکار کرنے والے ایسے سینکڑوں فوجی جیل کی سزا سے بچنے کے لیے سابق سوویت یونین سے الگ ہونے والے پڑوسی ممالک میں فرار ہو چکے ہیں۔
لیکن وہ قازقستان اور آرمینیا جیسے ممالک میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے، جن کے ماسکو سے قریبی تعلقات ہیں اور انہیں روس واپس بھیجے جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
مغرب میں شک کی نگاہ سے دیکھنے کے علاوہ ایسے روسی فوجیوں کے لیے لوجیسٹک وجوہات کی بنا پر یورپ میں پناہ حاصل کرنا بھی کافی مشکل ہوتا ہے۔
بہت سے لوگوں کے پاس صرف ایسی سفری دستاویزات ہیں، جو انہیں قازقستان یا آرمینیا جیسی سابق سوویت ریاستوں تک پہنچنے کی اجازت دیتی ہیں اور وہ باقاعدہ روسی پاسپورٹ سے محروم ہیں، جس کی بنیاد ویزا لے کر وہ یورپ کا سفر کر سکیں۔
اندرے امونوف فرانس پہنچنے سے پہلے دو برس تک قازقستان میں ہی پھنسے رہے۔
“انہوں نے کہا کہ “میں دو سال تک خوف میں رہا۔
شمال مشرقی سائبیریا کے شہر میرنی سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ ایک روڈ ورکر کو ایک دن ان کے باس نے بتایا کہ انہیں “برطرف” کر دیا گیا ہے اور انہیں محاذ پر جانا پڑے گا یا پھر انہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک پیشہ ور فوجی سرگئی نے یہ بھی بتایا کہ وہ گرفتار ہونے اور ملک بدر کیے جانے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ فرار ہونے والے فوجی کے علاوہ سرگئی ایک ہم جنس پرست بھی ہیں اور اپنے ساتھی کے ساتھ قدامت پسند وسطی ایشیائی ملک میں رہتے تھے۔
روسی فوج ترک کرنے والے ایک اور سپاہی میخائل (تبدیل شدہ نام) نے کہا کہ جس دن جنگ شروع ہوئی، اس نے سب کچھ بدل دیا۔ انہوں نے کہا، “میں نے محسوس کیا کہ اب سے میں اس کی حمایت کے لیے انگلی تک نہیں اٹھاؤں گا۔”
انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ کس طرح انہوں نے کئی مہینوں تک محاذ جنگ پر جانے کے احکامات کی مزاحمت کی اور اپنے خلاف شروع کی گئی قانونی کارروائیوں سے کیسے لڑتے رہے۔
آخرکار مئی 2023 میں وہ اپنے مقدمے کی سماعت سے چند دن پہلے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے کہا، “جس دن میں آستانہ پہنچا وہ میری زندگی کا بہترین دن تھا۔”
قازقستان میں ان جنگجوؤں نے مقامی حقوق کے کارکنوں کے ذریعے ملاقات کی اور پھر دوسروں کو میدان جنگ سے فرار ہونے کی ترغیب دینے کے لیے ویڈیوز ریکارڈ کروائیں، جو “ہتھیاروں کو الوداع” کہنے کے نام سے منسوب کی گئی ہیں۔
فرانس میں اب یہ تمام مرد آخر کار خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ایرگئی اب عوام میں اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، “یہ ایک بہت اچھا احساس ہے۔”
امونوف نے پہلے کبھی یورپ کا سفر نہیں کیا تھا اور اب وہ ایک نئی زندگی شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ فرانسیسی اور انگریزی سیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “بالآخر آزادی اور حفاظت ملی۔ اب میں بہتر محسوس کر رہا ہوں۔”