برلن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/رائٹرز) جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس بدھ کو لندن پہنچ رہے ہیں جہاں وہ اپنے برطانوی ہم منصب جان ہیلی کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے پر دستخط کریں گے۔
نیٹو کے ان دونوں اتحادیوں نے، جو دفاع پر یورپ کے دو سب سے بڑے خرچ کرنے والے ملک بھی ہیں، کہا کہ نیا “ٹرینیٹی ہاوس ایگریمنٹ” مغربی دفاعی اتحاد کے مشرقی کنارے پر تعاون اور مشقیں کرنے کی ان کی صلاحیت کو مضبوط کرے گا۔
پسٹوریئس اور ہیلی نے پہلی بار جولائی میں برلن میں اپنی میٹنگ کے دوران ان منصوبوں کے بارے میں بات کی تھی، جس پر دستخط اب بدھ کو لندن میں طے پائے تھے۔
یہ پیش رفت روس کے یوکرین پر مکمل حملے کے دو سال بعد، لندن میں حکومت کی تبدیلی کے چند ماہ بعد، اور امریکہ میں انتخابات سے دو ہفتے سے بھی کم عرصہ قبل یورپ میں نیٹو اتحادیوں کی طرف سے قریبی نگاہ رکھے جانے کے بعد ہو رہی ہے۔
پسٹوریئس کا مشرقی کنارے کو مضبوط کرنے پر زور
جرمن وزیر دفاع نے کہا کہ یہ معاہدہ یورپ کے اندر صلاحیت کے خلا کو ختم کرنے کے حوالے سے ہے۔
پسٹوریئس نے اپنی روانگی سے قبل جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ “فضائی، زمینی، سمندری اور سائبر ڈومینز پر منصوبوں کے ساتھ، ہم مشترکہ طور پر اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے، اس طرح نیٹو کے اندر یورپی ستون کو مضبوط کریں گے۔”
انہوں نے کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے نے ظاہر کردیا ہے کہ ہمیں یورپ میں سلامتی کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔
پسٹوریئس نے کہا کہ “میرے لیے یہ خاص طور پر اہم ہے کہ ہم نیٹو کے مشرقی حصے کو مضبوط کرنے کے لیے اور بھی زیادہ قریبی تعاون کریں، مثال کے طور پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے میدان میں۔”
یہ ایک ‘سنگ میل لمحہ’ ہے، ہیلی
برطانوی وزیر دفاع جان ہیلی نے اس معاہدے کو “جرمنی کے ساتھ بربطانیہ کے تعلقات میں سنگ میل کا لمحہ اور یورپ کی سلامتی کی ایک بڑی مضبوطی” قرار دیا۔
انہوں نے اس معاہدے کے عناصر کی بھی تعریف کی جو ہتھیاروں کی تیاری جیسے جزوی طور پر تجارتی شعبوں میں قریبی تعاون کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “یہ جرمن مسلح افواج اور صنعت کے ساتھ نئے تعاون کی بے مثال سطحوں کو محفوظ بناتا ہے، جس سے ہماری مشترکہ سلامتی اور خوشحالی کے فوائد حاصل ہوتے ہیں، ہماری مشترکہ اقدار کی حفاظت ہوتی ہے اور ہمارے دفاعی صنعتی اڈوں کو فروغ ملتا ہے۔”
جرمن اسلحہ ساز کمپنی رائن میٹل ایک نئی فیکٹری کھولے گی جس سے 400 ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔ وہ ایک دہائی میں برطانیہ میں آرٹلری گن بیرل بنانے والی پہلی کمپنی ہو گی۔
یوکرین پر روس کے حملے نے یورپی ہتھیاروں کی تیاری اور پیداواری صلاحیتوں میں کمی کو بھی اجاگر کیا ہے، کیونکہ برطانیہ اور جرمنی دونوں یوکرین کو فوجی امداد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ڈھائی سال سے زائد عرصے سے جاری تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے، اور جس سے ان کے ذخیرے ختم ہو رہے ہیں۔
معاہدے کے ایک اور حصے میں جرمن سرویلانس طیارے کو تعینات کرنا شامل ہے جو اسکاٹ لینڈ میں آبدوزوں کی نشاندہی کرے گا، تاکہ وہاں سے شمالی بحر اوقیانوس کی نگرانی کی جا سکے۔
معاہدہ یورپ کے متعلق برطانیہ کے بدلتے موقف کا مظہر
برلن میں وزارت دفاع نے اس معاہدے کو “یورپ کے حوالے سے برطانوی تبدیلی کا اظہار” قرار دیا۔
یہ وزیر اعظم کیر سٹارمر کی لیبر پارٹی کے جولائی میں انتخابات جیتنے اور 2010 کے بعد پہلی بار اقتدار میں واپس آنے اور برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد کا حوالہ ہے۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کے تعلقات میں “ری سیٹ” چاہتا ہے۔ تاہم، کچھ لوگوں نے سوال کیا ہے کہ واقعی کتنی پیش رفت ہو سکتی ہے کیونکہ سٹارمر یورپی یونین کے اداروں کی طرف کسی بھی واپسی کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
دونوں حکومتوں نے کہا کہ دوطرفہ معاہدہ دیگر یورپی اتحادیوں کے لیے بھی کھلا ہے اگر وہ مستقبل میں اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
یورپ کا دوسرا بڑا فوجی طاقت اور ہتھیار بنانے والا ملک فرانس ہے، اور اب برطانیہ، فرانس اور جرمنی سبھی نے ایک دوسرے کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کیے ہیں، جو ممکنہ طور پر مزید ملکوں کی شمولیت کے دروازے کھول رہے ہیں۔