انقرہ (ڈیلی اردو/بی بی سی ) ترک حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اُن کی فوج نے عراق اور شام میں کرد عسکریت پسند گروپ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 59 افراد ہلاک ہوئے ہیں جنھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس کے برعکس شام میں کرد عسکریت پسند گروپ پی کے کے کا کہنا ہے کہ ملک کے شمال اور مشرق میں 12 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ بدھ کے روز ترکی کے دارلحکومت انقرہ کے قریب ہونے والے حملے کی مختلف ویڈیوز میں کم از کم دو افراد کو ترکش ایرو سپیس انڈسٹریز کے داخلی دروازے پر حملہ آور ہوتے دیکھا جا سکتا ہے، جو دارالحکومت سے تقریبا 40 کلومیٹر دور واقع ہے۔
انقرہ کے قریب ترکش ایرو سپیس انڈسٹریز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی بھی گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے جس میں 5 افراد ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔
گذشتہ روز وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دو حملہ آوروں کو ٹی اے آئی کے داخلی دروازے کے قریب فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے تاحال قبول نہیں کی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس حملے کو ’سنگین‘ جُرم قرار دیا تھا۔
ترکی کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا کا کہنا تھا کہ حملے میں ملوث ایک مرد اور خاتون حملہ آور کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس حملے میں پی کے کے کے ملوث ہونے کا قومی امکان موجود ہے۔
پی کے کے پر ترکی، امریکہ اور برطانیہ میں پابندی عائد ہے اور اس کے جنگجو ترکی میں کُرد اقلیت کے حقوق کے لیے 1980 کی دہائی سے ترک ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
ترک نائب صدر جودت یلماز کا کہنا ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والے چار افراد ٹی اے آئی کے ملازمین تھے جبکہ پانچواں شخص ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا۔
اس سے قبل ترکی کے مقامی میڈیا پر اطلاعات نشر کی گئیں تھیں کہ حملہ آوروں نے ٹیکسی ڈرائیور کو قتل کر کے ان کی گاڑی کو ٹی اے آئی پر حملے میں استعمال کیا۔
اطلاعات کے مطابق ٹی اے آئی کے داخلی دروازے پر دھماکہ اس وقت ہوا جب شفٹ تبدیل ہو رہی تھی اور اسی وقت تمام ملازمین کو محفوظ مقامات پر پناہ لینے کی احکامات جاری کیے گئے تھے۔
ترکی کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ حملے میں زخمی ہونے والے 22 افراد میں سپیشل فورسز کے سات اہلکار بھی شامل ہیں۔
ترک صدر اردوغان اس وقت برکس کے اجلاس میں شرکت کے لیے روس میں موجود ہیں۔ انھوں نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے دوران انقرہ کے قریب ہونے والی عسکریت پسندوں کی کارروائی کو ’گھناؤنا حملہ‘ قرار دیا ہے۔
بعد میں ایکس پر جاری کیے گئے ایک تفصیلی بیان میں صدر اردوغان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے برق رفتاری سے عسکریت پسندوں سے نمٹا اور یہ کہ ’ہماری سکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے والی کوئی بھی دہشتگرد تنظیم، کوئی بھی شیطانی قوت اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پائے گی۔‘
ترک حکام نے ٹی اے آئی پر ہونے والے حملے کے حوالے سے میڈیا پر تفصیلات نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور ملک کے ایک بڑے حصے میں سوشل میڈیا صارفین یہ شکایت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ وہ یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بُک اور ایکس تک رسائی نہیں حاصل کر پا رہے۔
ترکی کے ریڈیو اور ٹی وی ریگولیٹر کے صدر نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس واقعے سے متعلق تمام تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹا دی جائیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا صارفین سے گزارش کی کہ وہ بھی یہ تصاویر ڈیلیٹ کر دیں کیونکہ اس سے ’دہشتگردوں کے مقصد کو تقویت‘ ملے گی۔
ترکی کی وزارت دفاع نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ جوابی حملوں میں ’دہشت گردوں کے 32 اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔‘
تُرک صدر رجب طیب اردوغان نے ایکس پر ایک پوسٹ میں ٹی اے آئی پر حملے کو ’گھناؤنی کارروائی‘ قرار دیا۔
تاہم اس سے قبل گزشتہ روز ترک وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ ’پی کے کے، کے اس حملے میں ملوث ہونے کا قوی امکان ضرور ہے مگر ابھی یہ واضح نہیں لیکن اس حملے سے متعلق تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور بہت جلد حملہ آوروں سے متعلق مزید تفصیلات سامنے لائیں گے۔‘
کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کیا ہے؟
کردستان ورکرز پارٹی یعنی پی کے کے کئی دہائیوں سے ترکی کے لیے مُشکلات اور مسائل کا باعث بنی ہوئی ہے۔
پی کے کے کی بنیاد 1970 کی دہائی کے اواخر میں رکھی گئی تھی اور اس نے 1984 میں ترک حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا اور ترکی کے اندر ایک آزاد کرد ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔
ترکی میں جنگی سازوسامان، ایف 16 اور ایروسپیس ٹیکنالوجی کمپنی کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
* ٹی اے آئی ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے قریب قائم ایک سرکاری ادارہ ہے۔
* یہ ادارہ سویلین اور فوجی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے علاوہ ڈرونز بھی بناتا ہے۔ جو نہ صرف ترک فوج استعمال کرتی ہے بلکہ دنیا بھر میں فروخت بھی کیے جاتے ہیں۔
* ٹی اے آئی کی ویب سائٹ کے مطابق اس ادارے کے قیام کا مقصد ایروسپیس ٹیکنالوجی کے حوالے سے ترکی کی دفاعی درآمدات میں کمی لانا تھا۔
* یہ کمپنی ترکی میں امریکی ڈیزائن کردہ ایف 16 لڑاکا طیاروں کی لائسنس یافتہ مینوفیکچرر ہے۔
* ٹی اے آئی ترک فوج کے استعمال کے لیے پرانے طیاروں کو جدید بنانے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔
* یہ فرم ترکی کی مسلح افواج اور ترک حکومت کے دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے ایک ادارے کے ماتحت ہے۔
* ٹی اے آئی کا ہیڈکوارٹر انقرہ کے شمال مغرب میں 17 میل (28 کلومیٹر) کے فاصلے پر کہرامانکازان کے علاقے میں واقع ہے۔
* کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ٹی اے آئی کا ہیڈکوارٹر تقریباً چار مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ ہیڈکوارٹر میں کہاں یا کس چیز پر حملہ ہوا ہے۔