نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) بھارت کے زیرانتظام کشمیرمیں وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی قیادت میں نئی منتخب حکومت قائم ہوتے ہی فوج اور بڑے تعمیراتی منصوبوں پر مسلح حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
گاندربل میں چینی سرحد کی طرف جانے والی شاہراہ پر بننے والی سرنگ کے قریب کام کرنے والے سات ملازمین کی ہلاکت کے صرف چار روز بعد جمعرات کو فوج پر ایک اور مسلح حملہ ہوا۔
فوج کے مطابق بھاری ہتھیاروں سے لیس گلمرگ کے بوٹا پتھری جنگلاتی خطے میں مسلح شدت پسندوں نے فوج کی ایک گاڑی پر فائرنگ کی جس میں دو فوجی اور فوج کا سامان ڈھونے والے دو مقامی مزدور (پورٹرز) مارے گئے۔
لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے جموں کشمیر کے سب سے بڑے سکیورٹی ادارے ’یونیفائڈ ہیڈکوارٹر‘ کا اجلاس طلب کرکے ’دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس‘ کی پالیسی کو سختی سے نافذ کرنے کی ہدایات جاری کردی۔
اس دوران انڈین فوج کی شمالی کمان کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل ایم وی سچندرا کمار نے وادی کا دورہ کرکے یہاں کی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔ اسی دوران پلوامہ کے ترال قصبہ میں ایک غیر مقامی مزدور کو نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر زخمی کردیا ہے۔
وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ان سلسلہ وار حملوں کو تشویشناک قرار دے کر ان کی مذمت کی ہے۔ یہ حملے ایسے وقت ہورہے ہیں جب عمر عبداللہ کی سربراہی والی نئی حکومت جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کروانے کے لیے دوڑ دھوپ کررہے ہیں۔
کابینہ کی پہلی میٹنگ میں اس سلسلے میں جو قرار داد منظور کی گئی تھی وہی قرار داد لے کرعمرعبداللہ نے گذشتہ روز نئی دلی میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ سے ملاقات بھی کی۔
اسی دوران بی جے پی کے ایک مقامی رہنما اشوک کول نے ایک بیان میں کہا کہ ’جب تک دہشت گرد حملے بند نہیں ہوں گے، جموں کشمیر کا سٹیٹ ہُوڈ بحال نہیں ہوسکتا۔‘
واضح رہے 2019 میں انڈین پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 کو آئین سے خارج کرکے جموں کشمیر کی خودمختاری کو ختم کیا تھا اور ریاست کا درجہ گھٹا کر اسے دو الگ الگ مرکزی انتظام والے خطوں میں تقسیم کیا تھا۔
پارلیمنٹ میں ’مناسب وقت پر‘ سٹیٹ ہوُڈ کی واپسی کا وعدہ خود وزیرداخلہ امیت شاہ نے کیا تھا لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہو پایا ہے۔