اسرائیل کے ایران میں فضائی حملے، تہران کی فوجی اڈّوں پر حملوں کی تصدیق، نقصانات کی اطلاع

تہران + تل ابیب (ڈیلی اردو/بی بی رائٹرز/اے ایف پی/نیوز ایجنسیاں) جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب اسرائیل کی جانب سے ایران میں میزائل حملے کیے گئے ہیں تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ان کا ہدف کیا تھا۔ اب تک اسرائیل نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ ’عسکری اہداف‘ پر حملے کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ تہران کے دو ہوائی اڈوں پر آپریشن معمول کے مطابق جاری ہے۔

فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے سینیئر فیلو بہنام بن طالبلو نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کے نیم سرکاری میڈیا اداروں پر موجود تصاویر اور ویڈیوز ایسا تاثر دے رہی ہیں کہ سب کچھ پرسکون ہے لیکن یہ اس کے بالکل برعکس ہے جو ہم ملک میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں۔

ایران کی سلامتی اور سیاسی امور پر نگاہ رکھنے والے طالبلو کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اسرائیل صرف میزائلوں کی پیداواری تنصیبات کو ہدف بنا رہا ہے یا پاسداران انقلاب کا پورا ایرو سپیس نیٹ ورک اس کے نشانے پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اب تک ہم جن اہداف کو دیکھ رہے ہیں ان کی بنیاد پر اس کا مقصد ایران کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کے خطرے کو ختم کرنا ہے۔

بی بی سی کے فارسی نیوز پروگراموں کے میزبان جمال الدین موسوی جو یروشلم گئے تھے، کہتے ہیں ’ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حملے محدود تھے اور ایران کی تیل یا جوہری تنصیبات کو نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔‘

ایران کے سوشل میڈیا صارف نے بی بی سی کو بتایا کہ اس نے جنوبی تہران میں امام خمینی ایئرپورٹ کے قریب دھماکے کی آواز سنی اور کہا کہ آواز بہت قریب تھی۔

ایک صارف نے لکھا ’تہران کے لوگ 2 بج کر 14 منٹ پر یکے بعد دیگرے 3 دھماکوں کی خوفناک آواز سے بیدار ہوئے۔‘

کچھ لوگوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ تہران-کاراج روڈ کے 9 کلومیٹر پر دھماکے کی آواز سنی گئی۔

ایک صارف نے لکھا ’ہم نے 7 خوفناک دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔‘

’امریکہ حملوں میں شامل نہیں‘

ادھر امریکہ میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل ایران میں حملے ’اپنے دفاعی عمل‘ کے طور پر کر رہا ہے۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے بی بی سی کے امریکی نیوز پارٹنر سی بی ایس کو بتایا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اپنے دفاع کے لیے یکم اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف ایران کے بیلسٹک میزائل حملے کے جواب میں ایران میں فوجی اہداف کو نشانہ بنا کر حملے کر رہا ہے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس، جو آج رات ٹیکساس میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں، دونوں کو ایران پر اسرائیل کے حملے کے بارے میں بریفنگ دی گئی ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے بی بی سی کے امریکی نیوز پارٹنر سی بی ایس کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کو ’بریفنگ دے دی گئی ہے اور وہ اس پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘

ایک امریکی دفاعی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہفتے کی صبح ایران پر اسرائیل کے فضائی حملے میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن کو اس آپریشن کا پہلے سے علم تھا۔

ایران پر ممکنہ اسرائیلی حملے کے منصوبے سے متعلق لیک ہونے والی امریکی خفیہ دستاویزات میں کیا کہا گیا ہے؟

ایرانی میڈیا کی رپورٹنگ

بی بی سی فارسی سے تعلق رکھنے والے بہمن کلباسی نے کہا کہ ایران کا سرکاری میڈیا فی الحال ان حملوں سے کوئی بڑا نقصان ہونے کی تردید کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ وہ حملے ناکام رہے۔

کلباسی نے کہا کہ تاریخی طور پر ایران کی طرف سے یہ ایک عام ردعمل رہا ہے جب بھی اس پر کوئی حملہ کیا گیا۔ اور یہ محض بدلے کا تاثر ختم کرنے کے لیے ہو سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ لیکن یہ حکمت عملی اس صورت میں ناکام ہو سکتی ہے جب نقصان کو ظاہر کرنے والے ثبوت موجود ہوں یا کوئی جانی نقصان ہوا ہو۔

اسرائیل نے ایران میں پاسدارانِ انقلاب کی تنصیبات کو نشانہ بنایا

ایران کے سرکاری میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ دارالحکومت تہران اور اس کے ارد گرد دھماکے ہوئے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ اہداف کیا تھے اور کیا انھیں اسرائیل نے کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔

پاسداران انقلاب کے قریبی نیوز سائٹس نے کہا ہے کہ کچھ فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن فی الحال کم از کم ایرانی میڈیا نقصانات کو کم بتا رہا ہے۔

جو کچھ ہوا ہے اس کی حقیقی نوعیت ایرانی حکام کی طرف سے ہی سامنے آئے گی۔

تاہم شاید اسرائیل اپنے حملے کی تفصیلات ظاہر کرنے میں اجلت سے کام لے لیکن اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا وہ ایک اور حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔

پینٹاگون نے بریفنگ دی ہے کہ امریکہ کو اسرائیل کے منصوبوں سے پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا اور اس آپریشن میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ بات اس لحاظ سے اہم ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع کو تصادم کی شکل اختیار کرنے سے روکنے کے لیے واشنگٹن کوشش کر رہا ہے۔

امریکہ اس بات کا بھی انتظار کرے گا کہ آیا اسرائیل کے اہداف فوجی اہداف تک محدود ہیں یا اس سے آگے بڑھ کر ایران کے جوہری پروگرام سے منسلک تنصیبات کو شامل کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ اس سے تہران کی جانب سے ایک اور بڑا ردعمل سامنے آئے۔

فی الحال اسرائیل نے واشنگٹن کے انتباہوں پر کسی حد تک کان دھرے ہیں اور ایرانی حکام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے اپنے پرعزم منصوبوں پر قدرے لگام لگائی ہے۔

اسرائیل کے حملے ایرانی بیلسٹک میزائل حملوں کا ردِ عمل

اسرائیل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے ایران میں فوجی اہداف پر درست حملے کیے ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور نقصان کی حد کیا ہے۔

اس سے قبل امریکہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ وہ جوہری اور تیل کے مقامات پر حملوں سے گریز کرے جس سے خطے میں تنازعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

یہ حملے ایران کی جانب سے رواں ماہ کے اوائل میں اسرائیل پر 200 بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد کیے گئے ہیں۔ اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ جوابی حملہ کرے گا لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب اور کن مقامات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اب تک اسرائیلی فضائی حملوں میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ، حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ اور ایران کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے آپریشن کمانڈر بریگیڈیئر جنرل عباس نیلفورشان ہلاک ہو چکے ہیں۔

اب تک ایران کے سرکاری میڈیا نے جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب ہونے والے ان حملوں کو ناکام قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد ایران کی جانب سے یہ ایک عام ردعمل ہے۔ تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر شدید نقصان یا ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آئیں تو صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔

شام میں بھی دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں تاہم اسرائیل نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز اور اے ایف پی نے شام کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام کی فضائی دفاعی فورسز نے میزائلوں کو روکا اور انھیں مار گرایا۔

پینٹاگون کے مطابق اس حملے میں امریکہ ملوث نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے ان حملوں کو ایک دفاعی اقدام قرار دیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس حملوں کے بعد ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ایران پر اسرائیلی حملوں کا لیک منصوبہ

یاد رہے کہ گذشتہ جمعے کو ایک ٹیلی گرام چینل نے ’مڈل ایسٹ سپیکٹیٹر‘ کے ذریعے کچھ مبینہ خفیہ امریکی دستاویزات شائع کی تھیں جن میں امریکہ کی جانب سے ایران پر حملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا جائزہ لیا گیا تھا۔

چینل نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دستاویزات امریکی انٹیلیجنس سے وابستہ ایک اہلکار نے انھیں فراہم کی ہیں۔

امریکی خفیہ امریکی دستاویزات لیک ہونے سے متعلق تحقیقات کر رہا ہے۔

امریکی سپیس انٹیلیجنس ایجنسی اور امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے تیار کردہ یہ دستاویزات ’فائیو آئیز‘ یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پانچ ملکی انٹیلیجنس اتحاد کے ساتھ شئیر کی جانی تھیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار برائے سکیورٹی امور فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صدارتی انتخاب میں چار ہفتوں سے بھی کم وقت بچا ہے اور ایسی صورتحال میں وائٹ ہاؤس ایرانی تیل کی تنصیبات پر کسی بھی ایسے حملے کا خیرمقدم نہیں کرے گا جس کا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑ سکتا ہے اور نہ ہی وہ مشرق وسطیٰ کی ایک اور جنگ میں گھسیٹا جانا چاہے گا۔

یاد رہے ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر تقریباً 200 بیلسٹک میزائل داغے تھے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے زیادہ تر فضا میں ہی روک کر تباہ کر دیا گیا۔

اس سے قبل رواں سال اپریل میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے کے بعد ایران نے اسرائیل کی جانب ڈرونز اور میزائل داغے تھے۔

ایران کی اپنے فوجی اڈّوں پر اسرائیلی حملوں کی تصدیق

ایران کی فضائی دفاعی افواج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل نے تہران، خوزستان اور ایلام صوبوں میں اس کے اڈوں پر حملے کیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا گیا ہے لیکن کچھ مقامات پر ’محدود نقصان‘ ہوا ہے۔

اسرائیلی حملے مکمل ہو گئے

ادھر اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ ایرانی فوجی ٹھکانوں پر حملے مکمل ہو چکے ہیں۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کچھ دیر پہلے، آئی ڈی ایف نے ایران کے متعدد علاقوں میں فوجی اہداف کے خلاف درست اور ہدف کے حملے مکمل کیے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ ہمارے طیارے بحفاظت گھر واپس آ گئے ہیں۔‘

بی بی سی کے امریکی نیوز پارٹنر سی بی ایس نیوز سے بات چیت کرنے والے دو دفاعی عہدیداروں کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیل میں اپنے ہم منصب وزیر دفاع یویو گیلنٹ سے بات کی ہے۔

ایران اور عراق نے اپنی اپنی فضائی حدود بند کر دیں، تمام پروازیں معطل

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا ایجنسی ارنا کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ایران نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں۔

ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے ترجمان نے ارنا کو بتایا کہ ملک نے تمام پروازیں تاحکم ثانی منسوخ کردی ہیں۔

اس سے پہلے عراق نے بھی اپنی فضائی حدود بند کر نے کا اعلان کیا ہے۔

عراق کے وزیر ٹرانسپورٹ نے کہا تھا کہ وہ خطے میں جاری فوجی آپریشن کے پیش نظر ملک کی فضائی حدود کو بند کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے عراق کی سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی این اے کے حوالے سے بتایا ہے کہ علاقائی کشیدگی کے باعث تمام ہوائی اڈوں پر فضائی آمدورفت تاحکم ثانی معطل کر دی گئی ہیں۔

امریکہ کا ایران سے جوابی کارروائی نہ کرنے کا مطالبہ

امریکہ نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اسرائیل کے تازہ ترین حملوں کا جواب نہ دے۔

امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اگر ایران نے ایک بار پھر جواب دینے کا فیصلہ کیا تو ہم تیار رہیں گے اور ایک بار پھر ایران کے لیے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’امریکہ ایسا ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست حملوں کے تبادلے کا اختتام ہونا چاہیے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن ’لبنان میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوششوں کی قیادت کرنے‘ اور اسرائیل سے پکڑے گئے یرغمالیوں کی واپسی سمیت غزہ میں جنگ بندی کے حصول کی کوشش کرنے کے لیے تیار ہے۔

اسرائیلی فضائی کا ایران میں میزائل بنانے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر سنیچر کے روز ایران پر فضائی حملے کیے اور اس کے فضائیہ کے طیاروں نے وہ میزائل بنانے والی تنصیبات کو نشانہ بنایا جو ایران نے گذشتہ سال اسرائیل پر داغے تھے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے ساتھ ہی آئی ڈی ایف نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں اور اضافی ایرانی فضائی صلاحیتوں کو نشانہ بنایا جن کا مقصد ایران میں اسرائیل کی فضائی آزادی کو محدود کرنا تھا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اپریل اور اکتوبر میں ایران کے حملوں اور خطے میں اس کے پراکسیوں کی حمایت علاقائی استحکام اور سلامتی اور عالمی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں