کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران کے شہر تفتان میں عسکریت پسند گروہ جیش العدل کے حملے میں کم ازکم 10 ایرانی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔
ایران کی وزرات داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ سیستان و بلوچستان کے ایرانی حدود میں واقع تفتان کے علاقے گوہرکوہ میں اس وقت پیش آیا جب مسلح افراد نے پولیس کے پٹرولنگ یونٹ پر حملہ کیا۔
ایران کے وزیر داخلہ اسکندر مومنی نے اسے ’دہشت گرد‘ حملہ قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
سیستان و بلوچستان پولیس کے انفارمیشن سینٹر نے بھی سنیچر کے روز ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ تفتان شہر میں گوہر کوہ تھانے کے دو پٹرولنگ یونٹس کے 10 ملازمین ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ اہلکاراس وقت حملے کا نشانہ بنے جب وہ شہریوں کو سیکورٹی فراہم کرنے کے بعد اپنے ٹھکانے پر واپس آرہے تھے۔
عسکریت پسند گروہ جیش العدل نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فراجا جابر فورسز کے ایک گشتی یونٹ کو تفتان شہر کے گوہرکوہ میں نشانہ بنایا گیا‘ اور مزید تفصیلات کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
ایران کی وزارت داخلہ نے ہلاک ہونے والے 10 فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے تفتان شہر صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہروں میں سے ایک ہے اور اس کا مرکز نوک آباد شہر ہے۔
جیش العدل کیا ہے؟
بی بی سی فارسی کے مطابق ’جیش العدل‘ تنظیم ایک مسلح عسکریت پسند گروہ ہے جو ایرانی حکومت کا مخالف ہے۔ یہ تنظیم خود کو ’انصاف اور مساوات کی فوج‘ اور سنی تنظیم کے طور پر متعارف کرواتی ہے۔ یہ گروہ خود کو ایران کے صوبہ سیستان اور بلوچستان میں ’سُنی حقوق کا محافظ‘ قرار دیتا ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق سنی بلوچ ملیشیاؤں پر مشتمل ’جیش العدل‘ نامی تنظیم کا قیام سنہ 2009 میں ایران کی جانب سے عسکریت پسند گروہ ’جند اللہ‘ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو ’ملک و قوم کے خلاف کام کرنے‘ کے الزام میں گرفتار اور پھانسی دینے کے چند ماہ بعد عمل میں آیا تھا۔
عبدالمالک ریگی کو ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان میں بم دھماکے کرنے، ایرانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے اور برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ ہونے کے الزامات کے تحت پھانسی دی گئی تھی۔
ریگی کی گرفتاری کے بعد ایران میں تعینات اس وقت کے پاکستانی سفارتکار محمد عباسی نے کہا تھا کہ ایران کو انتہائی مطلوب عسکریت پسند اور جنداللہ کے سابق سربراہ عبدلمالک ریگی کی گرفتاری میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریگی کو اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ دبئی سے کرغزستان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
دوسری جانب امریکہ کے ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل انٹیلی جنس کے مطابق ’جیش العدل‘ نامی شدت پسند تنظیم (جس کا ماضی کا نام ’جنداللہ‘ ہے) سنہ 2005 میں اُس وقت کے صدر احمدی نژاد پر حملے سمیت ایران میں متعدد دھماکوں اور حملوں میں ملوث رہی ہے اور اس تنظیم کی جانب سے یہ کارروائیاں زیادہ تر بلوچستان کے سرحدی صوبے چار باہ اور زاہدان میں کی گئی ہیں۔
بی بی سی فارسی کے مطابق اپنی تشکیل کے ابتدائی برسوں میں شام میں ایران کی ’مداخلت‘ جیسے اقدام کی مخالفت کو جند اللہ کی پالیسیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ سنہ 2012 میں اس تنظیم نے اپنا نام تبدیل کر کے ’جیش العدل‘ رکھا ہے۔
گذشتہ برسوں کے دوران اس گروہ نے ایران کی فوج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مسلح اور خونریز جھڑپیں کی ہیں اور جنوب مشرقی ایران کے سرحدی علاقوں میں کئی مسلح حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق ایران کی حکومت ’جیش العدل‘ کو ’دہشت گرد گروہ‘ اور سعودی عرب اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں سے منسلک سمجھتی ہے اور اسے ’جیش الظلم‘ کہتی ہے۔
ایران کی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کا قتل اور ایرانی سرحدی محافظوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کا اغوا اس گروہ کی سرگرمیوں میں شامل ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق زاہدان کے معروف امام مولوی عبدالحمید نے ہمیشہ اس گروہ کی طرف سے ایرانی سرحدی محافظوں پر حملوں اور ان کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور ہر حال ہی میں چند مغویوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اُنھوں نے اپنی اپیل میں کہا تھا کہ اس طرح کی کارروائیاں ’سیستان اور بلوچستان کے علاقے کے لیے نقصان دہ ہیں‘، اس لیے اس نوعیت کے حملے بند کیے جائیں۔
سنہ 2002 میں جند اللہ کے قیام کے بعد سے اس تنظیم نے بارہا ایران میں مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان میں سے ایک سب سے خونریز واقعہ سنہ 2008 کے صدارتی انتخابات کے موقع پر، زاہدان میں شیعہ مساجد میں سے ایک میں بم دھماکہ تھا جس میں 25 افراد ہلاک اور 120 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری جند اللہ نے قبول کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
تفتان ایران کے سیستان کے بلوچستان میں کہاں واقع ہے؟
ایران میں تفتان کا علاقہ پاکستان کے سرحدی ضلع چاغی سے متصل سیستان بلوچستان میں میر جاوہ کے قریب واقع ہے۔
یہ ایران کے ضلع نوک آباد کا حصہ ہے جس کی آبادی زیادہ تر مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ایران کے سرحدی ضلع چاغی کے ایرانی سرحد سے جڑے آخری شہر کا نام بھی تفتان ہے جو کہ ایران اور پاکستان کے درمیان ضلع چاغی سے آمدورفت اور تجارت کا سب سے بڑا پوائنٹ ہے۔
ایران کے ساتھ بلوچستان کے پانچ اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر کی سرحدیں لگتی ہیں۔
طویل عرصے سے ایران کے سرحدی علاقوں میں بدامنی کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔ ماضی میں ایران کے سیستان بلوچستان میں ایرانی سیکورٹی فورسز پر حملوں کی ذمہ داری جُنداللہ نامی تنظیم کی جانب سے قبول کی جاتی رہیں۔
تاہم تنظیم کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی 2009 میں گرفتاری اور 2010 میں پھانسی کے بعد اب اس نوعیت کی زیادہ تر کاروائیوں کی ذمہ داری جیش العدل کی جانب سے قبول کی جا رہی ہیں۔
پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ بننے والی تنظیم
ماضی میں ایران پاکستان پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ جیش العدم اس پر حملے کے لیے پاکستان کی سرحدی حدود استعمال کرتی ہے۔
دسمبر 2023 میں سیستان و بلوچستان میں ایک ایرانی پولیس سٹیشن پر حملے میں 11 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے اس وقت خبر دی تھی کہ ایرانی وزیر داخلہ احمد واحدی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرحدوں میں اڈے قائم کرنے سے روکے۔
ایرانی خبر رساں ادارے نے کہا تھا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ’حملہ آور پاکستان سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔‘
اس کے بعد رواں برس جنوری میں ایران نے پاکستانی صوبے بلوچستان کے ایک سرحدی گاؤں سبزکوہ میں میزائل حملہ کیا تھا۔ ایران کے نیم سرکاری اور پاسدارانِ انقلاب سے منسلک میڈیا نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں جیش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان نے بلوچستان کے علاقے پنجگور میں ایران کے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس واقعے میں دو بچے ہلاک اور تین لڑکیاں زخمی ہوئی ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کا اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ناقابلِ قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
اس ایرانی حملے کے اگلے ہی روز پاکستان نے ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں کارروائی کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں پاکستان مخالف عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
تاہم پاکستان اور ایران نے مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کو کم کیا اور اس کے بعد متعدد سینیئر ایرانی رہنما بشمول سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔
مگر اس کے بعد بھی ایران پر جیش العدل کے حملے رُک نہیں پائے ہیں۔
رواں برس اپریل میں بھی سیستان و بلوچستان میں پاسدارانِ انقلاب کے اڈے پر حملہ ہوا تھا جس میں 11 ایرانی سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس وقت ایران کے سرکاری میڈیا نے خبر دی تھی کہ اس حملے کے بعد سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں جیش العدل کے 16 اراکین بھی ہلاک ہوئے تھے۔