اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار کے ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق مرکزی ہسپتال میں ادویات اور مناسب سہولیات کی عدم دستیابی اور علاقے میں کشیدگی کے باعث ایمرجنسی کی صورت میں صوبے کے بڑے ہسپتالوں تک نہ پہنچ پانے کے باعث اب تک کم از کم چھ بچوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق ان بچوں کو ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاڑہ چنار سے بہتر علاج معالجے کے لیے پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں ریفر کیا گیا تھا تاہم سکیورٹی صورتحال کی خرابی کے باعث پشاور پاڑہ چنار پر آمد و رفت بند ہونے کے باعث یہ بچے بروقت پشاور کے ہسپتالوں میں نہ پہنچ پانے کے باعث دم توڑ گئے
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ہوئے مسافر ویگن قافلے پر حملے کے نتیجے میں متعدد افراد کی ہلاکت کے بعد سے پاڑہ چنار، پشاور روڈ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہے اور مقامی افراد کے مطابق علاقے میں کھانے پینے کی اشیا، تیل اور ادویات کی قلت کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس مسافر ویگن قافلے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے ہوئے تھے۔
کوہاٹ کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق پیر کے روز سڑک کھلوانے کی کوشش کے لیے بم ڈسپوزل سکواڈ کی مدد بھی حاصل کی گئی کہ اسی دوران شدت پسندوں کی جانب سے سیکورٹی اہلکاروں پر حملہ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں دو ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی۔
واضح رہے یکم اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں مسافر قافلے پر ہوئے حملے کا ایک پس منظر ہے۔ ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر ہونے والے تنازع میں اب تک درجنوں افراد کی جان جا چُکی ہے۔
اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے۔ اس علاقے میں رواں برس ہونے والے پُرتشدد واقعات کے باعث زمین کا یہ ٹکڑا کم از کم 43 افراد کی جان لے چُکا ہے اور متعدد افراد ان جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
مریضوں کیلئے سہولیات کے فقدان پر ہسپتال انتطامیہ کیا کہتی ہے؟
ڈسڑکٹ ہسپتال پاڑہ چنار کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر سید میر حسن جان کے مطابق بروقت مناسب طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث ہلاک ہونے والے بچوں میں ایک کم عمر بچی الوا بھی شامل ہیں۔
ان کے مطابق الوا کو سینے کے شدید انفیکشن کا سامنا تھا اور انھیں فوری طور پر وینٹیلیٹر پر منتقل کرنے کی ضرورت تھی۔
تاہم پاڑہ چنار میں وینٹیلیٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے انھیں پشاور ریفر کیا گیا مگر پشاور پاڑہ چنار شاہراہ پر آمد و رفت بند ہونے کے باعث یہ مُمکن نہ ہوسکا۔
ڈاکٹر سید میر حسن جان کے مطابق اس کے علاوہ ہمارے پاس قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے آئے تھے۔ ان بچوں کو بھی پشاور ریفر کیا گیا تھا مگر انھیں بھی مُنتقل نہیں کیا جا سکا۔ ان کے علاوہ ایک اور بچے کو بھی پشاور برن یونٹ میں ریفر کیا گیا تھا مگر اُس کی منتقلی بھی مُمکن نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر سید میر حسن جان کا کہنا ہے کہ ’جو علاج معالجہ ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ممکن ہے وہ ہم کر رہے ہیں۔ اس وقت ہمارا پورا عملہ ایمرجنسی پر ہے ڈاکٹروں سمیت تمام عملہ الرٹ ہے۔ مریضوں کو ہر ممکنہ سہولت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کچھ مریض ایسے ہوتے ہیں جن کی زندگی بچانے اور بہتر علاج کے لیے پشاور یا ٹیچنگ ہسپتال منتقل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
’ہمیں آکسیجن کی ضرورت ہے‘
ڈاکٹر سید میر حسن جان کے مطابق ’اس وقت ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ مسعود کی جانب سے ہسپتال کے لیے آکسیجن کی فراہمی کو یقینی تو بنایا گیا مگر وہ نا کافی تھی۔ ہمارے پاس اس وقت ہسپتال میں جان بچانے والی ادوایات کا سٹاک بس 15 دن کا رہ گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم نے اپنا آئی سی یو وارڈ ایمرجنسی میں ہی منتقل کردیا ہے تاکہ وہاں پر دل کے مریضوں کو سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اس وقت کئی دل کے مریض ایسے ہیں جن کو پشاور یا دیگر ہسپتالوں میں بہتر علاج معالجے کے لیے منتقل کیا جانا چاہیے لیکن ایسا مُمکن نہیں۔‘
’میں نے اپنی بھانجی کو مرتے دیکھا‘
کم عُمر بچی الوا ڈسڑکٹ ہسپتال پاڑہ چنار سے پشاور منتقل نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئی۔
الوا کے ماموں ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ اپر کرم کے رہائشی ہیں۔ بچی کو ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں پر ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کو سینے میں شدید انفیکشن کی شکایت ہے اور اسے فوری طور پر وینٹیلیٹر پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک جانب الوا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی اور ہم لوگ پاگلوں کی طرح یہاں وہاں بھاگ رہے تھے کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ الوا کو پشاور منتقل کیا جاسکے۔ مگر ہماری سب کوششیں بے سود گئی۔ میں وہ لمحہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا جب رات گئے ڈاکٹروں نے بتایا کہ الوا اب اس دنیا میں نہیں رہی۔
’ہماری آنکھوں میں بھانجی الوا کے جانے اور اس سے زیادہ اپنی بے بسی کے آنسو تھے۔‘
’ایمبولینس والوں نے کہا کہ راستے میں خطرہ بہت ہے‘
سید ثاقی حسین پاڑہ چنار کے ایک پسماندہ دیہات زیڑان کے رہائشی ہیں۔ ان کا چھ سالہ بھتجیا سید شاہ گھر میں کھیلتے ہوئے حادثاتی طور پر جل گیا تھا جس کو فوراً ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچایا گیا۔ سید کے والد سید نقی حسین ملازمت کے سلسلے میں دوبئی میں ہوتے ہیں۔
سید ثاقی حسین کہتے ہیں کہ ’ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ڈاکٹروں نے فی الفور بچے کو طبی امداد فراہم کی اور ساتھ ہی اسے فوری طور پر پشاور کے ہسپتال میں برن یونٹ ریفر کیا گیا۔
سید ثاقی حسین کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد میں نے کئی لوگوں کو فون کیے سب سے منت سماجت کی کہ کسی طرح میرے بھتیجے کی جان بچانے کے لیے اس کو پشاور جانے کی اجازت دی جائے مگر مجھے کسی بھی طرف سے مثبت جواب نہیں ملا تھا۔ اس وقت میری اور میرے خاندان کی کیا حالت تھی یہ بتا نہیں سکتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ایک آخری کوشش کے طور پر مختلف ایمبولینس سروس سے بات کی۔ غیر سرکاری اداروں کی ایمبولینس سروس نے تو مکمل معذرت کرلی اور کہا کہ وہ اپنے ڈرائیور کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔‘
سید ثاقی حسین کہتے ہیں کہ ’ہم نے مختلف ایمبولینس والوں کو ایک لاکھ روپیہ اور اس سے بھی زیادہ پیسے دینے کی پیش کش کی ان سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ ہمیں پشاور پہنچا کر واپس نہ آسکے تو ہم پشاور میں ان کی رہائش کا خرچ بھی برداشت کریں گے مگر کوئی بھی جانے کو تیار نہیں ہوا۔‘
علاقے میں اشیا خوردونوش کی قلت
خرلاچی کا علاقہ پاکستان افغانستان بارڈ پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کا آخری سرحدی گاؤں ہے اس کے بعد افغانستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس بستی میں150 سو گھرانے آباد ہیں۔ اس علاقے میں دو بڑے کریانہ سٹور حاجی امداد اور گل فارم حسین ہیں۔
حاجی امداد کہتے ہیں کہ ’میرے کریانہ سٹور پر اشیا خورد و نوش تقریباً ختم ہو چُکی ہیں۔ یہاں کے غریب لوگ ہیں یہ محنت مزدوری کر کے روزانہ کی بنیاد پر اشیا خوردونوش خریدتے ہیں مگر اب ان لوگوں کے پاس محنت مزدوری کے ذرائع نہیں ہیں اور میرے پاس بھی کھانے پینے کی اشیا نہیں۔
گل فارم حسین کہتے ہیں کہ ’ہمارے علاقے سے پاڑہ چنار 15 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ میں دوسرے، تیسرے دن پیدل پاڑہ چنار جا کر تھوڑی بہت اشیا خورد ونوش لے کرآتا ہوں مگر اب پاڑہ چنار میں بھی یہ وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہیں۔ کسی ہول سیلر کے پاس ہوتی ہیں اور کسی کے پاس نہیں ہوتی ہیں۔‘
’دو سال کے طویل عرصے کے بعد سعودی عرب سے پاکستان آیا ہوں مگر اب تک گھر نہیں پہنچ سکا‘
دو سال کے طویل وقفے کے بعد ایک ماہ کی چھٹی پر پاڑہ چنار میں اپنے اہلخانہ سے ملنے کے لیے سعودی عرب سے آنے والے بشیر حسین اس صورتحال کے باعث گذشتہ 10 دن سے پشارو میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ پارہ چنار جانے والے راستوں کی بندش کی وجہ سے اپنے آبائی علاقے نہیں پہنچ سکے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’میرے والدین اور میرے بچے سب میرے منتظر ہیں، میں نے کوشش تو کی ہے کہ اُن سے ملنے چلا جاؤں مگر راستے بند ہیں۔ اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ میں اگر پاڑہ چنار چلا بھی جاؤں تو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں میں وہاں پھنس نہ جاؤں۔‘
بشیر حُسین انتظامیہ سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’حالات کو معمول پر لانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، اگر حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو حالات پہلے جیسے پُرامن ہو سکتے ہیں۔‘
روڈ کی بندش کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث طلبا بھی پریشان ہیں۔ ایک طالبعلم نے کہا کہ ’کشیدہ صورتحال کے باعث طلبا سکول جانے سے قاصر ہیں۔ آج کل امتحانات چل رہے ہیں اور پارہ چنار میں پیٹرول اور ڈیزل کی قلت کی وجہ سے بہت سے طلبا سکول، کالج نہیں پہنچ سکے ہیں۔‘
رابطہ کرنے پر ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے گرینڈ جرگے نے کوششیں شروع کر دی ہیں اور جلد ہی مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا جائے گا۔
کُرم میں ماضی میں بھی ایسے مسائل کی وجہ سے حالات کشیدہ رہ چُکے ہیں۔ زمین کا تنازع اُس علاقے میں یوں تو پرانا ہے مگر گذشتہ چند ماہ کے دوران حالات اس حد تک کشیدہ ہوئے کہ کہ قبائل کے درمیان شروع ہونے والا زمین کا تنازع مذہبی اور فرقہ وارانہ شکل اختیار کر گیا تھا۔
پارہ چنار سے ہی تعلق رکھنے والے لائق حسین کے چچا ایک ہفتہ قبل علاج کی غرض سے پشاور کے ہسپتال آئے جہاں اُن کی حالت کو دیکھتے ہوئے انھیں داخل کر لیا گیا۔ چھ دن تک زیرِ اعلاج رہنے کے بعد انھیں ہسپتال سے فارغ تو کر دیا گیا مگر وہ اب بھی پشاور میں ہی ہیں اور وجہ ہے راستوں کی بندش۔
لائق حُسین کا کہنا ہے کہ ’پارہ چنار سے ہم جتنے پیسے علاج کے لیے اپنے ساتھ لائے تھا وہ سب تو اب ختم ہو چُکے ہیں، کُچھ ہسپتال میں علاج پر لگ گئے اور جو باقی تھے وہ رہنے کے اخراجات پر خرچ ہو گئے۔ اب اس ساری صورتحال کی وجہ سے ہم یہاں پشاور میں پریشان ہیں اور گھر والے پارا چنار میں۔‘
ضلع کرم اہم کیوں ہے؟
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔
پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔
زمین کی ملکیت کا تنازع کیوں اور کہاں کہاں ہے؟
ضلع کرم کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔
وہی زمینیں جن کی ملکیت پر آج اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ہر چند ماہ بعد درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کرم کے زیادہ تر علاقوں میں لینڈ ریکارڈ آج تک موجود ہی نہیں ہے۔ لینڈ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع میں مختلف مقامات پر مختلف قبائل اور افراد زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔
خیال رہے کہ پارہ چنار کی زمین کا شمار قبائلی علاقوں کی زرخیز ترین زمینوں میں ہوتا ہے۔ سرسبز و شاداب اور پانی کے وافر ذخائر ہونے کے باعث یہاں کی فصلیں اور باغات مشہور ہیں جن میں چاول، سبزیاں اور میوہ جات کو خصوصی شہرت حاصل ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے چاول اتنے مشہور ہیں کہ پرانے وقتوں میں لوگ انھیں کھانے کے لیے خصوصی طورپر اپنے رشتہ داروں کے ہاں کرم جایا کرتے تھے۔
آج یہاں زمین کا تنازع کم از کم پانچ مختلف مقامات پر موجود 10 یا اس سے زائد دیہاتوں اور قبائل کے درمیان ہے جن میں زمین کے ساتھ ساتھ مسلک کی تقسیم بھی موجود ہے یعنی متنازع زمینوں پر اہل تشعیع اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا دعوی ہے۔
کرم میں فرقہ وارانہ اور زمین کی وجہ سے قبائل کے درمیان ہونے والے فسادات کی تاریخ تو پرانے ہے مگر اب ضلعی انتظامیہ کے مطابق گرینڈ جرگے نے حالات کو معمول پر لانے اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
پاڑہ چنار کی تازہ صورتحال
کوہاٹ ڈویثرن امن کمیٹی کے ممبر علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت اہم شاہراہ 12 اکتوبر کے واقعہ کے رد عمل میں بند ہے۔ ہم نے متعدد جرگے کیے ہیں مگر ان لوگوں کا مطالبہ ہے کہ پہلے جن لوگوں نے 12 اکتوبر کو کونج علیزئی کے علاقے میں فائرنگ کی ہے ان کو حراست میں لیا جائے۔‘
علامہ سید عبدالحسین الحسینی کہتے ہیں کہ ’ہم نے بحیثیت جرگہ ممبر کہا ہے کہ اس وقت روڈ بند ہونے سے انسانی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیزل، پیڑول، اشیا خوردونوش، ادوایات کی قلت پیدا ہوچکی ہے روڈ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کھولا جائے۔ باقی جو دہشت گرد ہیں جنھوں نے یہ فائرنگ کی ہے ان کو سزا دی جائے۔ ان کو پکڑا جائے ہم بھی مکمل ساتھ دیں گے۔‘
دوسری جانب یونین کونسل مقبل کے چیرمین عمران خان مقبل کہتے ہیں کہ ’یہ کہنا غلط ہے کہ عوام نے روڈ پر کوئی رکاوٹیں کھڑی کر کے اسے بند کر رکھا ہے۔ عوام کی جانب سے کوئی دھرنا نہیں ہے۔ یہ حکومت اور انتظامیہ کا معاملہ ہے کہ وہ روڈ کو کھولے اور ٹریفک کو بحال کرئے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ 12 اکتوبر کو جن لوگوں نے یہ سب کیا ان کو گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے۔‘
خوراک اور ادوایات کی کوئی قلت نہیں
کمشنر کوہاٹ متعصم بااللہ شاہ کا کہنا تھا کہ ’علاقے میں خوراک اور ادوایات کی کوئی قلت نہیں ہے انتظامیہ خوراک اور ادایات پہنچا رہی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے جس کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ جرگے منعقد کیے جارہے ہیں امید ہے کہ جلد ہی یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔‘
کمشنر کوہاٹ کا کہنا تھا کہ ’صورتحال دیکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ جلد بہتری آئے گی۔‘