غزہ + قاہرہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) اسرائیلی فوج نے پیر کو غزہ اور لبنان میں اپنے حملے جاری رکھے۔ لبنانی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے طائر شہر کے مرکز میں ایک رہائشی بلاک کو نشانہ بنایا، جس میں اب تک پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک صحافی نے بتايا کہ انہوں نے اپارٹمنٹس کے ايک بلاک کو منہدم ہوتے ديکھا۔ دوسری جانب لبنانی عسکريت پسند تنظيم حزب اللہ نے دعویٰ کيا ہے کہ اس کی جانب سے سرحدی علاقوں پر راکٹوں اور گولہ بارود کی مدد سے اسرائيلی افواج کو نشانہ بنايا گیا ہے۔
غزہ پٹی ميں جنگ کے آغاز ہی سے حزب اللہ نے حماس کے ساتھ يکجہتی کے طور پر اسرائيلی حدود ميں ميزائل حملے جاری رکھے ہوئے تھے جن کا وقفے وقفے سے اسرائيلی افواج جواب ديتی رہی۔ حماس ایک عسکری تنظيم ہے، جسے يورپی يونين، امريکا اور چند ديگر ممالک دہشت گرد تنظيم قرار ديتے ہيں۔
اسرائيلی افواج نے ايرانی حمايت يافتہ لبنانی تنظيم حزب اللہ کے خلاف گزشتہ ماہ باقاعدہ زمينی اور فضائی کارروائی شروع کی۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کے اعداد و شمار کے مطابق تيئیس ستمبر سے شروع ہونے والی اس وسيع تر کارروائی ميں اب تک لبنان ميں 1,620 افراد ہلاک ہو چکے ہيں، جبکہ ہلاک شدگان کی حقيقی تعداد اس سے زيادہ ہو سکتی ہے۔
بيروت حکومت نے پير کے روز مطلع کيا کہ ملک کے جنوبی حصے ميں پچھلے ہفتے ايک اسرائيلی حملے ميں تين صحافيوں کی ہلاکت کی باقاعدہ طور پر شکايت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ميں جمع کرا دی گئی ہے۔ اسرائيل کا کہنا ہے کہ جمعے کو رونما ہونے والے اس واقعے کی تفتيش جاری ہے۔
غزہ میں بھی حملے جاری
فلسطينی حلال احمر کے مطابق غزہ سٹی ميں ايک اسرائيلی ڈرون حملے ميں تين افراد مارے گئے۔ اے ايف پی اور ديگر ايجنسيوں کے نمائندوں کے مطابق ديگر مقامات پر بھی حملوں اور شيلنگ کی اطلاعات ہيں۔
اسرائيلی فوج کے مطابق شمالی غزہ ميں جباليہ کے مقام پر ‘زمينی اور فضائی کارروائی ميں درجنوں دہشت گردوں’ کو ہلاک کر ديا گيا۔
شمالی غزہ ميں ہی کمال عدوان نامی ہسپتال ميں اسرائيلی فوج نے حماس کے قريب ايک سو جنگجوؤں کو حراست ميں لينے کا دعویٰ بھی کيا۔ حماس کے زير انتظام غزہ کی وزارت صحت نے ہسپتال ميں عسکری سرگرميوں کے الزامات کو مسترد کيا ہے۔ اسرائيلی دفاعی افواج نے بعد ازاں پير کی سہ پہر اعلان کيا کہ ہسپتال ميں ان کا آپريشن اختتام پذير ہو چکا ہے۔
غزہ ميں فلسطينی گروپ حماس اور اسرائيلی فورسز کے خلاف جنگ گزشتہ برس اکتوبر ميں حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی۔ حماس کے جنگجوؤں کے اس حملے ميں تقريباً بارہ سو افراد ہلاک ہوئے، جن ميں اکثريت اسرائيلی عام شہريوں کی تھی۔ جنگجو ڈھائی سو کے قريب افراد کو یرغمال بنا کر بھی لے گئے تھے، جن ميں سے درجنوں اب بھی حماس کی قيد ميں ہيں۔
اس حملے کے رد عمل ميں شروع ہونے والی وسيع تر اسرائيلی فوجی کارروائيوں ميں اب تک غزہ ميں 43,020 فلسطينی مارے جا چکے ہيں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 101,110 ہے۔ يہ اعداد و شمار حماس کے زير انتظام وزارت صحت کے فراہم کردہ ہيں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہلاک شدگان کی ايک بڑی تعداد خواتين اور بچوں پر مشتمل ہے۔
ایران کی سخت جواب کی دھمکی
دريں اثناء ايرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعيل باغائی نے پير کو ایک بيان ميں کہا کہ ان کا ملک گزشتہ اختتام ہفتہ پر اسرائيل کی جانب سے کيے گئے حملے کا ‘سخت اور با اثر‘ جواب دے گا۔ اسرائيل نے ايران کی جانب سے يکم اکتوبر کو کيے گئے ميزائل حملے کے رد عمل کے طور پر ہفتہ چھبيس اکتوبر کو فوجی تنصيبات پر حملے کيے۔ ان حملوں ميں کم از کم چار ايرانی فوجيوں کی ہلاکت کی تصديق ہو چکی ہے۔
باغائی نے البتہ مزيد کہا کہ غزہ اور لبنان ميں جنگ بندی ان کی حتمی ہدف ہے۔
ايران کی درخواست پر آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ہو رہا ہے۔
مصر کی غزہ میں دو روزہ جنگ بندی کی تجویز
السیسی نے قاہرہ میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اتوار کو پیش کی گئی تجویز میں اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے عوض غزہ میں حماس کی قيد ميں چار اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سميت آئندہ 10 دنوں کے اندر مزید مذاکرات پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم مصری صدر نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ منصوبہ باضابطہ طور پر اسرائیل یا حماس کو پیش کیا گیا ہے۔
مصری صدر کی تجویز
مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی يہ تجويز اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل فلسطینی سرزمین پر گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے خلاف بھی جنگ لڑ رہا ہے اور اس نے ابھی حال ہی میں ایران پر فضائی حملے کیے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے روز کيے گئے يہ حملے دراصل ایرانی بیلسٹک میزائل حملوں کی جوابی کارروائی تھی۔ اس اسرائیلی اقدام نے عالمی سطح پر تحمل کے مطالبات کو جنم دیا ہے۔
اقوام متحدہ کا اجلاس
پیر 28 اکتوبر کو ایران کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں تہران نے اسرائیلی حملوں میں اُس کے چار فوجیوں کی ہلاکت کی مذمت کا مطالبہ کیا ہے۔ ایرانی رہنماؤں نے تاہم اسرائیل کے حملوں میں اپنے محدود نقصان کی بات کی۔ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن ‘مناسب جواب‘ دے گا۔
دریں اثناء ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے مطابق تہران کو حملے سے چند گھنٹے قبل ‘اشارے‘ موصول ہوئے تھے۔ امریکی نیوز سائٹ Axios نے پہلے ہی اطلاع دی تھی کہ اسرائیل نے ایک انتباہ جاری کر دیا تھا تاکہ تنازعے میں ‘وسعت اور شدت کو روکا جا سکے۔‘
اسرائیل کی طرف سے ایران کی توانائی کی تنصیبات یا بنیادی ڈھانچے کو نشانہ نہ بنانے کے اقدام سے جہاں تاجر طبقے کو راحت ملی، وہاں پیر کے روز تیل کی قیمتوں میں پانچ فیصد تک کی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔
مصر کا ثالثی کردار
مصر مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے قطر اور امریکہ کے ساتھ مل کر مہینوں سے بالواسطہ بات چیت میں ثالثی کر رہا ہے تاہم اس میں بہت کم پيش رفت ہو سکی ہے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا گزشتہ روز یعنی اتوار کو یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی غرض سے قطر پہنچنے والے تھے۔
یرغمالیوں کے اہل خانہ نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ماہ کے اوائل میں حماس کے رہنما یحییٰ السنوار کی ہلاکت کے تناظر میں ایک معاہدہ کرے۔ مذاکرات میں پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ والے اہم مسائل میں حماس کا یہ اصرار بھی شامل ہے کہ اسرائیل غزہ سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے، جسے اسرائیلی حکام بارہا مسترد کر چکے ہیں۔
اس سے قبل اتوار کو اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا تھا کہ مذاکرات میں ‘تکلیف دہ رعایتیں‘ درکار ہوں گی، اور صرف ‘فوجی کارروائی سے ملک کے جنگی مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔‘
گزشتہ برس 7 اکتوبر کے حملے کے دوران فلسطینی عسکریت پسند تنظيم حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 97 اسرائيلی اب بھی غزہ میں قید ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران 100 سے زیادہ کو رہا کر ديا گيا تھا۔
دریں اثناء اسرائیل غزہ اور لبنان میں لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرکاری نیشنل نیوز ایجنسی کے مطابق پیر کو جنوبی لبنان کے شہر طائر میں ایک فضائی حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے۔