جرمن شہری شارمہد کو ایران میں پھانسی دے دی گئی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/ڈي پی اے/رائٹرز) ایران کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ جمشید شارمہد کو پیر کے روز پھانسی دی گئی تھی۔ انہیں گزشتہ برس موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ جرمن حکومت نے اس سزائے موت کو قتل قرار دیا اور کہا ہے کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

شارمہد پر شیراز کی ایک مسجد میں سن 2008 میں دھماکہ کرنے کا الزام تھا، جس کے لیے انہیں پاسداران انقلاب سے وابستہ عدالت نے فروری 2023 میں موت کی سزا سنائی تھی۔ اس حملے میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم انہیں “زمین پر فساد برپا کرنے” جیسی قدرے مبہم مذہبی اصطلاح کے لیے مجرم قرار دیا گیا تھا۔ عام طور پر ایران کی اسلامی حکومت ایسے مبینہ جرائم کے لیے ایسی مذہبی اصطلاح کا استعمال کرتی ہے۔

ایران میں نیوز سائٹ میزان سمیت مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ موت کی سزا پر عمل پیر کی علی الصبح ہوا۔ ایران نے شارمہد پر امریکی خفیہ ادارے “ایف بی آئی اور سی آئی اے افسران” سے رابطہ کرنے کے ساتھ ساتھ “اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹوں سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش” کا الزام عائد کیا تھا۔

شارمہد کو قتل کیا گیا ہے، بیئربوک

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے دوہری شہریت رکھنے والے شارمہد کے “قتل” کی “سخت ترین الفاظ میں” مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمشید شارمہد کو دبئی سے ایران اغوا کر کے لے جایا گیا تھا، جنہیں برسوں تک بغیر کسی منصفانہ مقدمے کے قید میں رکھا گیا اور اب انہیں قتل کر دیا گیا۔

جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ تہران میں جرمن سفارت خانہ اور ان کی وزارت اس کیس کے حوالے سے سخت محنت کر رہی تھی، جس میں اعلیٰ حکام پر مشتمل وفد کو تہران بھیجنا بھی شامل ہے۔

انہوں نے جرمنی کے اگلے اقدامات کی وضاحت کیے بغیر اپنی ایک آن لائن پوسٹ میں کہا، “ہم تہران پر وقتاً فوقتاً واضح کرتے رہے ہیں کہ کسی جرمن شہری کو پھانسی دینے کے سنگین نتائج ہوں گے۔”

یہ سزا پر عمل درآمد نہیں بلکہ ایک اسکینڈل ہے، شولس

جرمن چانسلر اولاف شولس نے بھی شارمہد کی پھانسی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور اسے “ایک اسکینڈل” قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈيا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، “جمشید شارمہد کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے خلاف عدالت میں اپنا دفاع کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ جرمن حکومت نے بارہا اور بھرپور طریقے سے مسٹر شارمہد کی حمایت کی۔ ان کے خاندان کے ساتھ سے میری گہری ہمدردی ہے۔”

خاموش سفارت کاری ناکام ہو چکی ہے، میرس

اس سے قبل پیر کے روز قدامت پسند اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس نے اس موت کی سزا کو ایک “گھناؤنا جرم” قرار دیا اور کہا کہ یہ مقدمہ بین الاقوامی قانونی معیارات کا “مذاق” ہے۔

میرس نے کہا، “ایرانی حکومت نے ایک بار پھر اپنا غیر انسانی کردار دکھایا ہے۔ میں وفاقی حکومت سے فیصلہ کن جواب دینے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ ایران کے ساتھ ‘خاموش سفارت کاری’ کا طریقہ کار ناکام ہو چکا ہے۔ ایرانی سفیر کو بے دخل کیا جانا چاہیے۔ سفارتی تعلقات کو چارج ڈی افیئرز کی سطح تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔” میرس نے جرمنی سے ایران پر سخت یورپی پابندیاں لگانے کی اپیل بھی کی۔

بیٹی کی والد کی آزادی کیلئے مہم

ایران سے انہیں آزاد کرانے کے لیے، جو مہم چلائی گئی اس کی قیادت ان کی بیٹی غزل شارمہد کر رہی تھیں اور انہیں پھانسی نہ دینے کی درخواست کی تھی۔ جرمنی، یورپی یونین اور کئی دیگر ممالک نے بھی ان کی سزائے موت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

غزل شارمہد نے 2023 میں اپنے والد کو سزا سنائے جانے کے فوراً بعد ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا تھا، “مجھے نہیں لگتا کہ صرف الفاظ دہشت گرد حکومت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو میرے والد جیسے لوگوں کو ایران کے باہر سے اغوا کر کے وہاں لے جاتا ہے ۔یہ دہشت گرد حکومت کسی بھی قسم کی بات چیت یا سفارت کاری کا جواب نہیں دے گی، بدقسمتی سے ہم یہ سب دیکھ چکے ہیں۔”

‘انتہائی غیر منصفانہ’ مقدمے پر ایمنسٹی کا افسوس

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس کیس کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور قانونی کارروائی کو “انتہائی غیر منصفانہ” قرار دیا۔ گزشتہ اپریل میں اصل سزا کے بارے میں ایک رپورٹ میں، ایمنسٹی نے کہا تھا کہ شارمہد کو اپنی پسند کے ایک آزاد وکیل تک رسائی سے بھی محروم کر دیا گیا تھا اور الزام لگایا گیا کہ ریاست کی طرف سے مقرر کردہ دفاعی وکیل کی خدمات ناکافی تھیں۔

ایمنسٹی نے لکھا، “حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ان کے وکیل نے دو جولائی سن 2022 کو ان کے اہل خانہ کو بتایا تھا کہ انقلابی عدالت کے سامنے جبری ‘اعترافات’ کو بطور ثبوت تسلیم کرنے کے خلاف انہیں اعتراض کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔”

ایمنسٹی نے مزید بتایا کہ “اس سے پہلے مئی سن 2021 کو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ وکیل نے کہا تھا کہ خاندان نے اگر انہیں ڈھائی لاکھ امریکی ڈالر کی ادائیگی نہیں کی، تو وہ عدالت میں جمشید شارمہد کا دفاع نہیں کریں گے اور صرف ‘وہاں موجود رہیں گے۔”

کیلیفورنیا کے رہائشی کو دبئی سے اغوا گیا تھا

تہران نے شارمہد پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس دہشت گرد گروپ ٹونڈر کے سرغنہ تھے، جس نے امریکہ سے ایران میں مسلح اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی ہدایات دی تھیں۔

واضح رہے کہ کیلیفورنیا میں موجود قدرے غیر معروف ٹونڈر گروپ، “کنگ ڈم اسمبلی آف ایران” کی ایک مسلح شاخ ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ وہ ایران کی بادشاہت کو بحال کرنا چاہتا ہے، جسے سن 1979 کے اسلامی انقلاب نے ختم کر دیا تھا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ شارمہد کو دبئی سے اغوا کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ ایران میں حراست میں تھے۔ تاہم دبئی میں پکڑے جانے سے پہلے تک 69 سالہ شارمہد کیلیفورنیا میں رہا کرتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں