کرم: پارا چنار کا اٹھارویں روز بھی پاکستان کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع،خوردونوش کی قلت

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کا ملک کے بیشتر حصوں سے رابطہ اٹھارویں روز بھی بحال نہیں ہو سکا، جس کے باعث ڈسٹرکٹ ہسپتال پاڑہ چنار سے پشاور ریفر کیے جانے والے چھ مریض مر چکے ہیں۔ مرنے والوں میں پانچ بچے بھی شامل ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاڑہ چنار کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر میر حسن خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ہسپتال میں مکمل طبی سہولیات موجود نہیں، جس کی وجہ سے ایسے مریض جن کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے انھیں پشاور ریفر کر دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر میر حسن کا کہنا تھا گذشتہ دنوں ان کے ہسپتال میں پانچ بچے لائے گئے تھے جن کی پیدائش وقت سے پہلے ہوگئی تھی اور اس کے علاوہ کچھ بچے ایسے تھے جنھیں مختلف بیماریاں لاحق تھیں۔ مرنے والے بچوں میں جڑواں بچے بھی شامل تھے۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ ایک ہفتے سے کوئی تشویشناک مریض ان کے ہسپتال نہیں لایا گیا۔

جب ڈاکٹر میر حسن سے جب پوچھا گیا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ علاج میسر نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے، تو ان کا کہنا تھا علاقے کے دیگر ہسپتالوں اور نجی کلینکس سے بھی مریض پشاور ریفر کیے جاتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہو۔

ڈاکٹر میر حسن کے مطابق چھ ایسے مریضوں کی تصدیق ہوئی جنھیں ان کے ہسپتال سے پشاور ریفر کیا گیا تھا تاہم سڑکوں کی بندش کی وجہ سے وہ ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔

ضلع کُرم میں 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ہوئے مسافر وین قافلے پر حملے کے نتیجے میں متعدد افراد کی ہلاکت کے بعد سے پاڑہ چنار، پشاور روڈ ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے۔

یاد رہے کہ اس مسافر وین قافلے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے ہوئے تھے۔

کوہاٹ کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق پیر کے روز سڑک کھلوانے کی کوشش کے لیے بم ڈسپوزل سکواڈ کی مدد بھی حاصل کی گئی کہ اسی دوران شدت پسندوں کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں دو ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی۔

پاڑہ چنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر ہونے والے تنازع میں اب تک درجنوں افراد کی جان جا چُکی ہے۔

اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے۔ اس علاقے میں رواں برس ہونے والے پُرتشدد واقعات کے باعث زمین کا یہ علاقہ کم از کم 43 افراد کی جان لے چُکا ہے اور متعدد افراد ان جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے اقتدار میں آنے اور سرحد پر باڑ لگنے سے پہلے لوگ متبادل راستے کے طور پر افغانستان سے ہو کر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں میں داخل ہوتے تھے لیکن اب وہ متبادل راستے بند ہو چکے ہیں۔

جہاں شاہراؤں کی بندش کی وجہ سے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں اور مریض علاج معالجے کے لیے پشاور یا کوہاٹ کے ہسپتال نہیں پہنچ پا رہے ہیں وہیں بیرونِ ملک جانے والے افراد بھی ایئر پورٹ نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔

دوسری جانب علاقے میں پیٹرول اور اشیا خوردونوش کی قلت بھی پیدا ہونے لگی جس سے روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں