غزہ میں اسرائیلی حملے میں 140 سے زائد افراد ہلاک، لاشوں کی تلاش جاری

غزہ (ڈیلی اردو/وی او اے/اے ایف پی) غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے کہا کہ منگل کے روز ایک رہائشی بلاک پر اسرائیلی فضائی حملے میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے، اور امددی کارکن زندہ بچ جانے والوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس دوران اسرائیل نے غزہ اور لبنان میں اپنی کارروائیو ں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

اسرائیل کے اہم اتحادی اور حمایتی امریکہ نے اس حملے کو — جس میں بڑی تعداد میں بچے مارے گئے — “ہولناک” قرار دیا۔

فلسطینی امدادی کارکن اور پریشان حال مایوس خاندان والے شمالی غزہ میں بیت لاحیہ میں مسمار ہونے والے پانچ منزلہ بلاک کے ارد گرد جمع ہوئے۔

لمبے بالوں والی ایک جھلسی ہوئی لاش بالائی منزل کی ایک کھڑکی سے لٹکی ہوئی تھی اور کمبلوں میں لپٹی لاشیں سڑک پر قطار میں رکھی تھیں جب کہ پریشان حال رشتے دار اپنے پیاروں کو شناخت کرنے کی کوشش کرر ہے تھے۔

غزہ کے شہری دفاع کے ادارے کے ترجمان محمود بسال نے اے ایف پی کو بتایا کہ بیت لاحیہ میں ابو نصرکے خاندانی گھر میں مرنے والوں کی تعداد 140 سے زائد ہو گئی ہے، اور متعدد افراد اب بھی ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔”

بیت لاحیہ میں ایک عمارت پر اسرائیلی حملے کے بعد فلسطینی ملبے سے لاشیں نکال رہے ہیں، فوٹو اے ایف پی،29 اکتوبر2024
بیت لاحیہ میں ایک عمارت پر اسرائیلی حملے کے بعد فلسطینی ملبے سے لاشیں نکال رہے ہیں، فوٹو اے ایف پی،29 اکتوبر2024
اسرائیل کی فوج نے کہا کہ وہ بیت لاحیہ میں حملے کے بارے میں “اطلاعات کا جائزہ لے رہی ہے”۔ اس سے قبل اس نے بتایا تھا کہ زمینی اور فضائی فورسز نے غزہ میں حماس کے 40 جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے اور اسکے چار فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

‘خواتین اور بچے’

30 سالہ ربیع الشنداگلی نے کہا کہ “دھماکہ رات کو ہوا اور میں نے پہلے سوچا کہ یہ گولہ باری ہے، لیکن جب میں روشنی ہونے کے بعد باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ لوگ ملبے کے نیچے سے لاشوں، جسمانی اعضاء اور زخمیوں کو نکال رہے ہیں”۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، “زیادہ تر متاثرین خواتین اور بچے ہیں، اور لوگ زخمیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہاں کوئی اسپتال یا مناسب طبی امداد دستیاب نہیں ہے۔

واشنگٹن نے اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیاہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ “یہ ایک ہولناک واقعہ تھا جس کا ایک ہولناک نتیجہ تھا۔”

“ہم نےاسرائیل کی حکومت سے یہ پوچھنے کے لیے رابطہ کیا ہے کہ یہاں کیا ہوا تھا۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں