تہران (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ایرانی باشندے اپنی حکومت سے ناراض ہیں اور ان کے غصے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ تہران حکومت ملک کے اندر پائے جانے والے معاشی مسائل کو حل کرنے کی بجائے بیرون ملک حزب اللہ اور حماس جیسے عسکریت پسند گروپوں کی مدد میں ملوث ہے۔
ایران میں عوام کے اندر اپنی ہی حکومت کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ انہیں یہ خدشہ ہے کہ حکومت اندرون ملک پائے جانے والیے شدید معاشی بحران کے حل پر بیرون ملک تنازعات میں ملوث ہونے کو ترجیح دے رہی ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں ایرانی اہداف پر اسرائیل کے فوجی حملوں کے تناظر میں، ایران میں بہت سے لوگ اپنی مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں اور تازہ ترین صورتحال سے آگاہی کی کوشش کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔
ایرانی حکام طے کریں اسرائیل کو کیسے جواب دیا جائے، خامنہ ای
اسرائیل نے اس ماہ کے شروع میں اسلامی جمہوریہ کی طرف سے اسرائیل پر داغے گئے بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے رد عمل میں فضائی حملوں کے ذریعے ایران میں فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ ایران پہلے ہی قومی کرنسی کی قدر گرنے اور مہنگائی میں اضافے کے ساتھ معاشی بحران کا شکار ہے۔ بہت سے ایرانی باشندے حکومت کی ترجیحات پر تیزی سے سوال اٹھا رہے ہیں۔ وہ اسے ایک ایسی حکومت سمجھ رہے ہیں جو گھریلو ضروریات کو حل کرنے کی بجائے غیر ملکی تنازعات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی نظر آرہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر فوجی محاذ پر کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو ایران کے سرکاری بیانیے اور عوامی جذبات کے درمیان رابطہ منقطع ہونے کے سبب ایران کے داخلی استحکام پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
آزادی صحافت کی زبوں حالی
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق ایران ”آزادی صحافت کے حوالے سے دنیا کے سب سے زیادہ جابرانہ ممالک میں سے ایک ہے۔‘‘ اسرائیلی حملوں کے براہ راست بعد میں سخت سنسر شپ نظر آئی۔ ایرانی سرکاری میڈیا نے ابتدا میں حملوں پر خاموشی اختیار جو کہ ملک کے اندر متحرک سوشل میڈیا سرگرمی کے بالکل برعکس تھا، جہاں ایرانی عوام نے ٹیلی گرام اور X جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آسمان میں چمکتی روشنیوں اور بلند آوازوں کی ویڈیوز شیئر کرنے کے لیے آن لائن پابندیوں کے سبب VPNs کا استعمال کیا۔
ساتھ ہی، ایران کے انٹیلی جنس اور سکیورٹی اپریٹس سے منسلک اکاؤنٹس نے سوشل میڈیا پر خبردار کیا کہ غیر ملکی میڈیا کے ساتھ تصاویر شیئر کرنے کو جاسوسی قرار دیا جا سکتا ہے۔
آخر کار، کچھ سرکاری ایرانی خبر رساں ذرائع نے اعتراف کیا کہ ایران پر حملہ ہوا ہے لیکن دعویٰ کیا کہ ایرانی دفاع نے کامیابی کے ساتھ حملوں کو روک لیا ہے۔
ریاست سے منسلک میڈیا اور سوشل چینلز نے حملے کی شدت کو کم کرکے اطلاعات جاری کیں۔ مثال کے طور پر ایران کے پاسداران انقلاب سے وابستہ ٹیلیگرام چینلز نے ہفتہ کی صبح تہران کے مرکز میں پرہجوم چوکوں کی تصاویر شیئر کیں اور یہ تاثر دیا کہ کچھ اہم واقعات رونما نہیں ہوئے ہیں۔
حکومت سے وابستہ متعدد صحافیوں نے ہفتے کے روز دارالحکومت تہران کے مصروف عوامی علاقوں سے بھی نشریات پیش کیں، اور اس بات پر زور دیا کہ زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔ تہران میں مقیم ایک صحافی، جو حفاظتی وجوہات کی بناء پر نام نہیں لے رہا، نے ہفتے کے روز ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”کچھ بھی تحریر نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے ایک پیغام میں لکھا،”میڈیا میں سرکاری موقف کے علاوہ کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ صحافیوں کو ان کے ذاتی سوشل میڈیا پیجز پر پوسٹ کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔‘‘
بیرون دنیا سے معلومات کا حصول
سابق ایرانی صدر حسن روحانی کے دور حکومت میں وزارت ثقافت کے تعلقات عامہ اور اطلاعاتی مرکز کے سابق مشیر اور سربراہ بابک دوربیکی نے اسرائیل کے حملے کے بعد آزاد میڈیا پر عائد ہونے والی پابندیوں پر تنقید کی۔ انہوں نے لندن سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بحرانوں کے دوران سرکاری میڈیا جس انداز سے خبروں کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے وہ کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے اور اس میں الجھن اور ہم آہنگی کا فقدان بھی واضح نظر آتا ہے۔‘‘
ایران کے عوام عام طور پر غیر مستحکم صورتحال میں ملک سے باہر فارسی زبان کے میڈیا کے ذریعے اور X پر سرگرم ایرانی صحافیوں سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے حکومت کے خلاف غصے کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ انہیں پناہ لینے کے لیے حملوں کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی۔ انہوں نے پناہ گاہوں کی کمی کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا کیونکہ ملک ممکنہ طور پر جنگ کے قریب پہنچ گیا ہے۔
ایرانی باشندوں نے اسلامی جمہوریہ کی قیادت سے اپنی مایوسی کا بھی اظہار کیا۔ کچھ لوگوں نے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی تنازعے کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اور اسلامی انقلابی گارڈ کور کا ان کے بقول ”لاپرواہ تعاقب‘‘ قرار دیا۔ ایران کی ریاستی مسلح افواج پر انقلابی حکومت کے دفاع کا الزام بھی لگایا۔