واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) فروری 2023 میں جب امریکی صدر جو بائیڈن اچانک یوکرین کے دارالحکومت کیئو دورے پر پہنچے تو فضا میں روسی حملوں سے خبردار کرنے والے سائرن بجنے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ جو بائیڈن نے بعد میں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے ایک احساس ہوا۔۔۔ پہلے سے زیادہ طاقتور، کہ امریکہ دنیا کے لیے ایک مشعل کی طرح ہے۔‘
اور اس وقت دنیا انتظار میں ہے کہ یہ خودساختہ مشعل کس کے ہاتھ میں جائے گی جب آئندہ ہفتے امریکی شہری صدارتی انتخابات میں ووٹ دیں گے۔ کیا کملا ہیرس جو بائیڈن کی تقلید کریں گی جن کا ماننا ہے کہ ’موجودہ حالات میں امریکہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا‘ یا پھر ڈونلڈ ٹرمپ فتح سے ہمکنار ہوں گے جو سمجھتے ہیں کہ اب ’گلوبلزم کے بجائے امریکنزم‘ کا وقت ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا میں زندہ ہیں جہاں امریکہ کا عالمی اثرورسوخ سوالات کی زد میں ہے۔ علاقائی طاقتیں اب اپنا راستہ خود بنا رہی ہیں، آمرانہ ریاستیں اپنے اتحادی خود چن رہی ہیں اور غزہ سمیت یوکرین میں تباہ کن جنگ جاری ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ واشنگٹن یعنی امریکی حکومت کا کردار کتنا اہم رہ گیا ہے؟
تاہم امریکہ اپنی معاشی اور عسکری طاقت کے بل بوتے پر اہمیت کا حامل ہے اور بہت سے عالمی اتحادوں میں اس کا کردار ہے۔ میں نے چند تجزیہ کاروں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس انتہائی اہم الیکشن کے عالمی اثرات کیا ہوں گے اور اس انتخاب کا نتیجہ دنیا کو کیسے بدل سکتا ہے۔
عسکری طاقت
نیٹو کی سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل روز گوٹیموئیلر کہتی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’یورپ کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہیں کیوں کہ نیٹو سے الگ ہونے کی ان کی دھمکی اب تک ہر کسی کے کان میں گونج رہی ہے۔‘
واضح رہے کہ امریکہ اپنے دفاع پر نیٹو کے باقی 31 رکن ممالک کے مجموعی بجٹ کے مقابلے میں دو تہائی رقم خرچ کرتا ہے۔ نیٹو سے ہٹ کر دیکھیں تو امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی اخراجات کرنے والے ممالک کی فہرست میں نہ صرف پہلے نمبر پر ہے بلکہ اس کا بجٹ اگلے 10 ممالک، بشمول روس اور چین، کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔
ٹرمپ کا دعوی ہے کہ وہ نیٹو کے رکن ممالک کو مجبور کر دیں گے کہ وہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھائیں کیوں کہ 2024 میں صرف 23 نیٹو ممالک مجموعی آمدن کا دو فیصد تک ہی دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔
اور اگر کملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو روز گوٹیموئیلر کا ماننا ہے کہ نیٹو محفوظ ہاتھوں میں ہو گا۔ تاہم کملا ہیرس کے معاملے میں بھی وہ محتاط ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں نیٹو اور یورپی یونیئن سے مل کر یوکرین میں فتح کے لیے کام کرنا ہو گا لیکن وہ دفاعی بجٹ میں اضافے کے دباو کو جاری رکھیں گی۔
کملا ہیرس کی مشکل یہ ہے کہ انھیں ایسے سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی موجودگی میں حکومت کرنا ہو گی جہاں جلد ہی ریپبلکن جماعت کی اکثریت ہو سکتی ہے جو بیرون ملک جنگوں کی حمایت سے گریز کرے گی۔ امریکہ میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ چاہے جو بھی صدر بنے، یوکرین پر اس جنگ سے باہر نکلنے کا دباؤ بڑھے گا کیوں کہ امریکی سیاست دان اور اراکین پارلیمنٹ اب بڑے بڑے امدادی پیکج منظور کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
روز گوٹیموئیلر کہتی ہیں کہ ’جو بھی ہو، میرا نہیں خیال کہ نیٹو کو بکھرنا چاہیے۔ یورپ کو آگے بڑھ کر سربراہی کرنے کی ضرورت ہے۔‘
’دوہرا معیار‘
امریکی صدر کو ایک ایسی دنیا کا سامنا ہو گا جہاں عالمی طاقتوں کے درمیان تنازع کا خطرہ سرد جنگ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
کمفرٹ ایرو انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’امن اور سکیورٹی کے معاملات میں امریکہ اب بھی سب سے زیادہ بااثر بین الاقوامی کھلاڑی ہے۔‘ ساتھ ہی ساتھ وہ کہتی ہیں کہ ’تنازعات کو حل کرنے کی امریکی طاقت کم ضرور ہوئی ہے۔‘
دنیا میں جاری جنگوں کو روکنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کمفرٹ ایرو اس صورت حال کو ایسے بیان کرتی ہیں کہ ’بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ تیز ہو رہا ہے اور درمیانی سطح کی طاقتیں بھی اب زیادہ ہو چکی ہیں۔‘ ایسے میں جان لیوا تنازعات طویل ہوتے جا رہے ہیں۔
یوکرین جیسی جنگ، جس نے بہت سے طاقتوں کو ملوث کر رکھا ہے، کے علاوہ مشرق وسطی اور سوڈان میں جاری تنازع علاقائی طاقتوں کے مفادات کی لڑائی ہے جس میں مخالفین امن سے زیادہ جنگ جاری رکھنے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔
کمفرٹ ایرو کہتی ہیں کہ ’امریکہ اخلاقی میدان میں ہار رہا ہے۔ عالمی کھلاڑی دیکھ رہے ہیں کہ یوکرین میں روس کے خلاف امریکی پیمانہ اور ہے، اور غزہ میں اسرائیل کے بارے میں کچھ اور۔ سوڈان کی جنگ میں ہولناک مظالم ہوئے لیکن اسے دوسرے درجے کے معاملے کے طور پر دیکھا گیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کملا ہیرس موجودہ دور میں تسلسل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ٹرمپ جیتے تو شاید وہ اسرائیل کو غزہ میں اور کھل کر کھیلنے کا موقع دیں، اور انھوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ماسکو سے یوکرین کے معاملے پر ڈیل کر سکتے ہیں۔‘
مشرق وسطی کے معاملے پر کملا ہیرس نے جو بائیڈن کے خیالات ہی دہرائے ہیں اور اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت کی ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’معصوم فلسطینیوں کا قتل روکنا ہو گا۔‘
ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ ’امن کی صورت حال میں واپس جانے اور لوگوں کا قتل روکنے کا وقت آ چکا ہے۔‘ تاہم انھوں نے خبروں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ انھیں ’جو کرنا ہے، کریں۔‘
ٹرمپ خود کو امن کا علمبردار کہتے ہیں۔ انھوں نے اتوار کی رات العربیہ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جلد ہی مشرق وسطی میں امن قائم کر دوں گا۔‘ ٹرمپ نے دعوی کیا کہ وہ 2020 کے ابراہام معاہدے کو وسعت دیں گے جس کے تحت اسرائیل اور چند عرب ممالک میں تعلقات بحال ہوئے تاہم اس پر تنقید ہوتی ہے کہ اس معاہدے میں فلسطینیوں کو نظرانداز کر دیا گیا اور یوں ایک غیر معمولی بحران نے جنم لیا جس نے اب جنگ کی شکل اختیار کر لی ہے۔
یوکرین پر ٹرمپ نے کبھی بھی روسی صدر پوتن کے لیے اپنے جذبات کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ وہ یوکرین جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی امریکی عسکری اور مالی امداد بھی۔ ایک حالیہ جلسے میں انھوں نے اعلان کیا کہ ’میں باہر نکل جاؤں گا۔ ہمیں باہر نکل جانا چاہیے۔‘
دوسری جانب کملا ہیرس نے کہا ہے کہ ’مجھے یوکرین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر فخر ہے۔ میں یوکرین کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔ اور میں اس بات کو یقینی بناوں گی کہ یوکرین اس جنگ میں حاوی ہو۔‘
تاہم کمفرٹ ایرو کو خدشہ ہے کہ جو بھی امریکہ کا صدر بنے گا، دنیا کے معاملات بدتر ہوتے جائیں گے۔
چین سے کاروبار
برطانوی مورخ رانا متر ہارورڈ سکول میں امریکی اور ایشیائی تعلقات کے ساتھ ساتھ چین کے امور پر مہارت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کی صدارت کے دوران چین سے درآمد تمام مصنوعات پر 60 فیصد ٹیرف بڑھانے کی تجویز پر وہ کہتے ہیں کہ یہ ’عالمی معیشت کو دہائیوں میں ملنے والا سب سے بڑا دھچکہ تھا۔‘
ٹرمپ کی امریکہ سب سے پہلے پالیسی رہی ہے اور وہ چین کے ساتھ ساتھ دیگر تجاری پارٹنرز پر بھی ڈیوٹی بڑھانے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ چینی صدر شی جن پنگ سے ذاتی مراسم پر فخر بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ اگر چین نے تائیوان کو بلاک کرنے کی کوشش کی تو ان کو عسکری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیوں کہ ’چینی صدر میری عزت کرتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ میں پاگل ہوں۔‘
تاہم امریکہ میں ڈیموکریٹ ہوں یا ریپبلکن، دونوں ہی چین کو ایک ایسی طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں جو امریکہ کی جگہ لینا چاہتی ہے۔ چینی رہنماؤں کا بھی ماننا ہے کہ ٹرمپ ہوں یا کملا ہیرس، امریکہ اور چین کے تعلقات زیادہ بہتر نہیں ہو گے۔
رانا متر کہتے ہیں کہ ’(چینی) اسٹیبلشمنٹ کا ایک چھوٹا سا گروہ کملا کے حق میں ہے کیوں کہ وہ انھیں ایک ایسے مخالف کے طور پر دیکھتے ہیں جسے وہ جانتے ہیں۔ ایک اقلیت ٹرمپ کو ایسے کاروباری کے طور پر بھی دیکھتی ہے جن سے شاید سودے بازی ہو سکے۔‘
انسان دوست قیادت
مارٹن گرفتھس حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی اہمیت ’عسکری اور معاشی طاقت کے علاوہ عالمی سٹیج پر اخلاقی اتھارٹی بھی ہے۔‘
وہ کملا ہیرس کے صدر بننے کی صورت میں بہتری دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ صدر بنے تو ’عالمی عدم استحکام زیادہ گہرا ہو گا۔‘
تاہم وہ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ پر بھی کڑی تنقید کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ عالمی تنظیموں سے امریکہ سے بارہا غزہ اور لبنان میں عام شہریوں کی مدد کے لیے اپیل کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے حکام نے غزہ میں زیادہ امداد بھیجنے پر زور دیا ہے اور اس سے فرق پڑا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ امداد اور امریکی دباو کافی نہیں۔
امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے زیادہ رقم عطیہ کرتا ہے۔ 2022 میں امریکہ نے ریکارڈ 18 ارب ڈالر سے زیادہ رقم فراہم کی تھی۔
دوسری جانب ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں انھوں نے اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کی فنڈنگ ختم کر دی تھی اور عالمی ادارہ صحت سے بھی باہر نکل گئے تھے۔ اس کے بعد دیگر ممالک نے عطیہ پورا کیا اور ٹرمپ یہی چاہتے تھے۔
مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں دنیا چاہتی ہے کہ ’امریکہ ذمہ دار، اصول پسند قیادت فراہم کرے۔ ہم زیادہ کی خواہش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ زیادہ ہی ہو گا۔‘