اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) چین نے اپنے قریبی اتحادی پاکستان پر دباؤ بڑھایا ہے کہ وہ چینی ورکرز پر بار بار حملے کے ذمہ دار عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔
چین نے خبر دار بھی کیا ہے کہ تشدد “ناقابلِ قبول” ہے اور اس کی وجہ سے سی پیک منصوبوں میں رکاوٹ آئی ہے۔
عوامی سطح پر یہ غیر معمولی انتباہ بیجنگ کے سفیر جیانگ زائی ڈونگ کی جانب سے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار کے دوران سامنے آیا جس میں پاکستان میں چینی شہریوں سے متعلق سیکیورٹی کی مسلسل کوتاہیوں کا الزام لگایا گیا۔
یہ سیمینار اسلام آباد میں موجود انڈپینڈنٹ پاکستان-چائنا انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ہوا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ریمارکس پاکستان میں چینی ورکرز کو درپیش سیکیورٹی خطرات پر چین کی بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں۔
چینی سفیر کی جانب سے رواں سال مارچ اور اکتوبر میں ہونے والے حملوں کا حوالہ دیا گیا جس میں سات چینی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ ایک دہائی قبل بی آر آئی کے حصے کے طور پر ایک بڑے دو طرفہ منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے آغاز سے اب تک پاکستان میں ہلاک ہونے والے چینی ورکرز کی تعداد 21 ہو گئی ہے۔
چینی سفارت کار نے مترجم کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا کہ “ہم پر صرف چھ ماہ میں دو بار حملہ ہونا ناقابلِ قبول ہے۔”
انہوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ اس طرح کی دہشت گرد کارروائیوں کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ قصورواروں کو شناخت کیا جائے، پکڑا جائے اور سزا دی جائے۔
خیال رہے کہ سی پیک منصوبوں کے تحت پاکستان میں انفراسٹرکچر، تجارت اور دیگر شعبوں میں چین نے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
چین کے سفارت کار نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ “چین مخالف تمام دہشت گرد گروہوں” کے خلاف کارروائی کرے۔ ان کے بقول بیجنگ کے لیے “سیکیورٹی سب سے بڑی تشویش ہے” اور یہ “سی پیک” منصوبوں میں “رکاوٹ” ہے۔ انہوں نے کہا کہ محفوظ اور صحت مند ماحول کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
سی پیک کے تحت سڑکیں، ہائی ویز، بنیادی طور پر کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس اور بلوچستان میں گہرے پانی کی گوادر بندرگاہ کی تعمیر جیسے منصوبے بھی شامل ہیں۔
سیمنار سے پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ ان کا ملک دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور چینی شہریوں کی سیکیورٹی کو سخت کر رہا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان آئندہ ماہ ہونے والے اعلیٰ سطح مذاکرات میں چین کے ساتھ پیش رفت شیئر کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ چینی رہنماؤں نے پاکستانی ہم منصبوں سے ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں کہا ہے کہ چین بہت واضح ہے کہ چاہے کہیں بھی کتنی بڑی سرمایہ کاری ہو، اگر وہاں سیکیورٹی کے مسائل ہیں تو چینی اہلکار نہیں بھیجے جاتے۔ لیکن آپ کا ملک واحد ہے جسے استثناٰ ہے۔
ناقدین کا اعتراض ہے کہ پاکستان کی مالی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام نے سی پیک میں نئی سرمایہ کاری میں چین کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
واشنگٹن میں مقیم جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل مین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بیجنگ کے سیکیورٹی خدشات نے اس میگا پروجیکٹ کے لیے جلد دوبارہ رفتار پکڑنا مشکل بنا دیا ہے۔
مائیکل کوگل مین نے کہا کہ جب چینی سفیر مناسب سیکیورٹی نہ ملنے پر پاکستان کو عوامی سطح پر ملامت کرے تو آپ جانتے ہیں کہ وہاں ایک بڑا مسئلہ ہے۔
سی پیک منصوبوں کے آغاز کے بعد پاکستان کی فوج نے ملک بھر میں اس طرح کے اقدامات کی حفاظت کے لیے 13 ہزار سے زائد اہلکاروں پر مشتمل ایک خصوصی تربیت یافتہ یونٹ تشکیل دیا تھا۔ لیکن چینی شہریوں پر حملوں نے اس ملٹری یونٹ کے کارگر ہونے سے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے۔
بیجنگ میں مقیم پاکستانی غیر ملکی ریسرچ ایسوسی ایٹ حسنین جاوید کہتے ہیں کہ چین نے پہلے کبھی اسلام آباد پر عوامی سطح پر تنقید نہیں کی تھی۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے تحریری جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ سی پیک سے متعلق ناقص سیکیورٹی پر شدید عدم اطمینان ہے۔ اب جب فوج ہی اہم ضامن ہے خاص طور پر سیکیورٹی کے لیے تو ایسا لگتا ہے کہ چینی کم صبر سے کام لے رہے ہیں۔
چینی ورکرز اور انجینئرز پر ہونے والے حالیہ حملوں میں زیادہ تر کی ذمہ داری بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔
اس گروپ کا الزام ہے کہ چین پاکستان کی مدد کرکے صوبے کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور وہ بیجنگ سے سی پیک اور دیگر سرمایہ کاری کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
البتہ دونوں ممالک ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچ باغی غریب صوبے میں ترقی روکنے اور چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات کو نقصان پہنچانے کے مشن پر ہیں۔
خیال رہے کہ بی ایل اے، امریکہ کی عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔ حال ہی میں اس تنظیم نے بلوچستان میں اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے اور اس دوران سینکڑوں پاکستانی خاص طور پر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔