جکارتہ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) ظلم، جبر اور بے دخلی کی شکار روہنگیا اقلیت کے ارکان ہر سال طویل اور خطرناک سمندری سفر اختیار کرتے ہوئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اکثر ملائیشیا یا انڈونیشیا پہنچنے کی اُمید میں کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔
مشرقی آچے کے ایک گاؤں کے اہلکار سیف الانور نے اے ایف پی کو بتایا کہ پناہ گزینوں کو جمعرات کی صبح سے پہلے صوبہ آچے کے ساحل سے 100 میٹر کے فاصلے پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس گروپ میں 46 خواتین، 37 مرد اور سات بچے شامل تھے، جبکہ مقامی لوگوں کو دو لاشیں ساحل پر اور چار سمندر میں تیرتی ہوئی ملیں۔
سیف الانور کے بقول، ”مقامی افراد سے موصول شدہ معلومات کے مطابق، یہ روہنگیا باشندے مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے کے قریب مغربی انڈونیشیا کے ایک ساحل پر پھنسے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی کشتی تھی جو انہیں لے کر آئی تھی۔‘‘
سیف الانور نے مزید بتایا کہ آٹھ بیمار پناہ گزینوں کو طبی علاج کے لیے لے جایا گیا۔ دریں اثناء مشرقی آچے کے قائم مقام ضلعی سربراہ امر اللہ رضا نے صحافیوں کو بتایا کہ پناہ گزینوں کو ساحل پر خیموں میں اُس وقت تک رکھا جائے گا جب تک کہ حکام انہیں پناہ نہیں دیتے۔
یو این ایچ سی آر کا بیان
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے کہا کہ وہ مغربی انڈونیشیا کے ساحل پر آنے والوں کے بارے میں جانتا ہے لیکن مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔
آچے کے قائم مقام گورنر صفریزال نے صحافیوں کو بتایا کہ مغربی انڈونیشیا کے ساحل پر روہنگیا کی تازہ ترین آمد کے ذمہ دار ‘انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والا مافیا‘ ہے۔ اس ماہ مغربی انڈونیشیا میں آنے والوں کا یہ تیسرا گروپ ہے، جس میں 150 سے زیادہ پناہ گزین آچے اور دیگر 140 شمالی سماٹرا صوبے میں پہنچے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق جنوری 2023ء سے مارچ 2024ء کے درمیان 2500 روہنگیا کشتیوں کے ذریعے آچے پہنچے، اس تعداد میں رونگیا باشندے پچھلے آٹھ سالوں میں انڈونیشیا پہنچے تھے۔
روہنگیا باشندوں کے ساتھ ہونے والے مظالم
رونگیا مسلم نسلی گروہ کو زیادہ تر میانمار میں ظلم و ستم کا سامنا ہے اور بہت سے لوگ فوجی کریک ڈاؤن سے بھاگ کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پھیلے ہوئے پناہ گزین کیمپوں میں پناہ حاصل کر رہے ہیں۔ ہر سال، ہزاروں روہنگیا بنگلہ دیش سے ملائیشیا تک 4,000 کلومیٹر (2,500 میل) کا خطرناک سفر طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر روہنگیا باشندے انڈونیشیا میں رک جاتے ہیں۔
انڈونیشیا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے پناہ گزینوں کو لینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس کی بجائے اس کے پڑوسی ممالک سے ان پناہ گزینوں کا بوجھ بانٹنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
آچے کے بہت سے باشندے، جو خود کئی دہائیوں کے خونی تنازعے کی یادیں رکھتے ہیں، اپنے ساتھی مسلمانوں کی حالت زار پر ہمدردی رکھتے ہیں لیکن دیگر کا ماننا ہے کہ روہنگیا کی بڑی تعداد میں سالانہ آمد ان کے صبر کا امتحان ہے۔