بلوچستان: مستونگ میں بم دھماکے میں 5 بچوں سمیت 8 افراد ہلاک، 23 زخمی

اسلام آباد + کوئٹہ (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/ڈی پی اے) پاکستانی صوبے بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ضلع مستونگ میں جمعے کی صبح ہونے والے ایک بم دھماکے میں 8 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک اسکول کے پانچ بچے اور ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

قلات ڈویژن کے ایک سینیئر پولیس افسر نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ’’اب تک سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اسکول کے پانچ طالب علم بھی شامل ہیں اور 17 دیگر افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔‘‘

ڈپٹی کمشنر مستونگ کیپٹن ریٹائرڈ میر باز خان مری نے آٹھ افراد کی ہلاکت اور 23 سے زائد زخمیوں کی تصدیق کی ہے۔

حکام کے مطابق یہ بم دھماکہ مستونگ سول ہسپتال کے قریب صبح آٹھ بج کر 35 منٹ پر ہوا۔

پولیس حکام کے مطابق پولیس اہلکار پولیو ٹیموں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔

ایس ایچ او عبدالفتاح نے بتایا کہ جائے وقوعہ کے قریب ایک سکول واقع ہے اور دھماکے کے وقت سکول جانے والی طالبات کی ایک بڑی تعداد وہاں سے گزر رہی تھی جس کے باعث وہ دھماکے کی زد میں آگئیں۔

مستونگ پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فون پر بی بی سی کو بتایا کہ دھماکہ خیز مواد ایک موٹر سائیکل میں نصب تھا جسے نامعلوم افراد نے اس وقت اڑایا جب پولیس کی گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے لیے اندازاً چھ سے سات کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے پی نے ایک مقامی پولیس اہلکار فتح محمد کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ اسکول کے بچوں کو لے جانے والا ایک آٹو رکشہ بم دھماکے کی زد میں آ گیا، جس کی وجہ چھ طالب علم، ایک پولیس افسر اور ایک راہ گیر ہلاک ہو گئے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند نے بتایا، ’’اس حملے کا بنیادی ہدف حفاظتی گشت کرنے والی پولیس کی ایک گاڑی تھی، تاہم اسکول کے بچوں کو لے جانے والا ایک رکشہ اس بم دھماکے کی زد میں آ گیا۔‘‘

اس حملے میں زخمی ہونے والوں کو نواب غوث بخش رئیسانی میموریل ہسپتال اور مستونگ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کرا دیا گیا تھا، تاہم بعد میں ان میں سے 11 زخمیوں کو کوئٹہ ٹراما سینٹر (کیو ٹی سی) منتقل کر دیا گیا۔

کیو ٹی سی کے اہلکاروں کے مطابق کوئٹہ منتقل کیے گئے زخمیوں میں ایک پانچ سالہ لڑکی اور ایک نو عمر لڑکا بھی شامل ہیں۔ ان زخمیوں میں سے پانچ کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔

بم دھماکے کی مذمت

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی دونوں نے اس بم دھماکے کی مذمت کی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملک سے باغیوں کے خاتمے تک ان کے جنگ جاری رہے گی۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے مستونگ میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے سوشل میڈيا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار اور معصوم بچوں کے لواحقین سے اظہار افسوس کیا۔

انہوں نے لکھا، ’’دہشت گردوں نے غریب مزدوروں کے ساتھ اب معصوم بچوں کو بھی نشانہ بنایا ہے اور یہ انسانیت سوز حملہ قابل مذمت ہے ۔ ۔ ۔ معصوم بچوں اور بے گناہ افراد کے خون کا حساب لیں گے، شہری آبادی میں مقامی افراد کو بھی دہشت گردوں پر نظر رکھنا ہو گی کیونکہ مل جل کر ہی دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

بلوچستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ

فوری طور پر کسی بھی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی انہیں بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر اپنے ہلاکت خیز حملے تیز کر دیے ہیں۔

تین روز قبل بھی بلوچستان میں ایک ڈیم کی تعمیراتی سائٹ پر مسلح افراد کے ایک حملے میں پانچ نجی محافظ ہلاک ہو گئے تھے اور مقامی لیکن ممنوعہ علیحدگی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔

اس طرح کے مسلسل حملے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے بلوچستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کافی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اس سے قبل اکتوبر کے مہینے میں ہی ایک حملے میں نجی طور پر چلائی جانے والی کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 21 کان کن بھی ہلاک ہو گئے تھے۔

بلوچستان میں ایک طویل عرصے سے شورش جاری ہے، جہاں علیحدگی پسند گروہ بنیادی طور پر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

ممنوعہ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے غیر ملکیوں پر بھی حملے کرتی رہتی ہے۔ گزشتہ ماہ اسی گروپ نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی تھی، جس میں کراچی کے ہوائی اڈے کے باہر چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں چین سے تعلق رکھنے والے دو کارکن ہلاک اور آٹھ دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔

چین کے اربوں ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نامی منصوبے کے تحت ہزاروں چینی کارکن پاکستان میں زیر تعمیر بنیادی ڈھانچے کے کئی بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں