تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی/ڈی پی اے) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ایک سینیئر معاون کا کہنا ہے کہ ایران گزشتہ ہفتے کے اسرائیلی حملے کا سخت جواب دے گا۔
تہران نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی فوجی تنصیبات پر اسرائیل نے گزشتہ ہفتے کے روز جو حملے کیے تھے، ان کا ”سخت جواب‘‘ دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پہلے ایران نے اسرائیل پر میزائل حملے کے تھے اور پھر جواباً اسرائیل نے بھی ایران پر حملے کیے۔ تہران نے اپنے حملوں کو ایرانی حمایت یافتہ عسکریت پسند رہنماؤں اور پاسداران انقلاب کے ایک کمانڈر کے قتل کا بدلہ قرار دیا تھا۔
اسرائیل اپنی طرف سے حملوں کے بعد سے ہی ایران کو جوابی کارروائی کے خلاف تنبیہ کرتا رہا ہے، جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ وہ جنگ تو نہیں چاہتا، البتہ اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کا عزم رکھتا ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم نے اطلاع دی ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے سینیئر معاون محمد محمدی گلپایگانی نے کہا، ’’ہمارے ملک کے کچھ حصوں پر حملہ کرنے کا اسرائیلی حکومت کا حالیہ اقدام ایک مایوس کن کارروائی تھا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے اس کا ایسا سخت جواب دیا جائے گا کہ انہیں اپنے کیے پر افسوس ہو گا۔‘‘
امریکہ کی ایک نیوز ویب سائٹ Axios کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلیجنس کا اندازہ ہے کہ ایران آئندہ دنوں میں عراقی سرزمین سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور ممکنہ طور پر پانچ نومبر کے روز ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے یہ حملہ ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق سے بڑی تعداد میں ڈرونز اور بیلسٹک میزائلوں کے ذریعے حملہ کیے جانے کا امکان ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران میں اسٹریٹیجک اہداف پر ایک اور اسرائیلی حملے سے بچنے کی کوشش میں تہران عراق میں ایران نواز ملیشیا کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔
راکٹ سے شمالی اسرائیل میں سات افراد ہلاک
اسرائیل میں طبی ماہرین نے بتایا ہے کہ شمالی اسرائیل کی سرحدی علاقے المطلہ پر حزب اللہ کے ایک راکٹ حملے میں سات افراد ہلاک ہو گئے۔ اس ماہ کے اوائل میں لبنان میں اسرائیلی فوج کی دراندازی کے بعد سے یہ اس طرح کا سب سے ہلاکت خیز حملہ ہے۔
اس سے پہلے دیگر رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ ایک اسرائیلی کسان اور چار غیر ملکی فارم ورکرز مارے گئے۔ اس کے بعد شمالی شہر حیفہ سے مزید دو اموات کی اطلاع ملی تھی۔
اسرائیل کے شمالی قصبے المطلہ کو، جو تین اطراف سے لبنان میں گھرا ہوا ہے، راکٹوں سے بھاری نقصان پہنچا ہے۔
اکتوبر 2023 میں اس قصبے کے بیشتر رہائشیوں نے انخلا کیا تھا اور وہاں صرف سکیورٹی اہلکار اور زراعت کا کام کرنے والے ہی رہ گئے تھے۔
امریکی سفارت کاروں کا لبنان اور غزہ میں جنگ بندی پر زور
امریکی ایلچی آموس ہوکسٹین نے جمعرات کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کے درمیان جنگ بندی پر بات چیت کی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز مذاکرات کاروں نے ممکنہ معاہدے پر ’’بہتر پیش رفت‘‘ کی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے لیے کوآرڈینیٹر بریٹ میک گرک اور آموس ہوکسٹین، جنہوں نے حزب اللہ کے ساتھ تنازعے میں مذاکرات کی قیادت کی تھی، حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے اسرائیل میں ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات سے عین قبل اس میں کوئی پیش رفت ہو پائی یا نہیں۔
وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے یروشلم میں بتایا، ’’وزیر اعظم نے واضح کر دیا کہ معاہدے سے متعلق اصل مسئلہ کاغذی کارروائی نہیں ہے، بلکہ معاہدے کے نفاذ کو یقینی بنانے اور لبنان سے سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے اسرائیلی عزم اور صلاحیت ہے۔‘‘
پانچ ہفتے قبل تنازعے میں شدت آنے کے بعد سے اسرائیل نے پورے لبنان میں بڑے پیمانے پر فضائی حملے کیے ہیں اور سرحد کے قریبی علاقوں پر زمینی حملے بھی کیے ہیں۔
لبنان کی وزارت صحت کے مطابق ملک میں اب تک کم از کم 2,200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور بارہ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے ہیں، جن میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
بدھ کے روز لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی نے ممکنہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں امید ظاہر کی تھی۔ حزب اللہ کے نئے رہنما نعیم قاسم نے بھی کہا ہے کہ ان کا گروپ بعض شرائط کے ساتھ جنگ بندی قبول کر سکتا ہے۔