اسرائیل جنگ بندی تجاویز مسترد کر رہا ہے، لبنانی وزیر اعظم

بیروت + تل ابیب (رائٹرز/اے ایف پی/ڈی پی اے) لبنان کے وزیر اعظم نجیب میقاتی نے جمعے کے روز اسرائیل پر جنگ بندی کی تجاویز کو مسترد کرنے کا الزام عائد کیا جب کہ اسرائیلی فوج نے اس ہفتے پہلی بار جنوبی بیروت میں حزب اللہ کے گڑھ پر بمباری کی۔

جمعے کی صبح اسرائیلی کی جانب سے بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں کم از کم 10 حملے کیے گئے۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج نے علاقے کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو فوٹیج میں کئی مقامات پر دھماکے اور دھوئیں کے بادل اٹھتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

لبنان کی قومی نیوز ایجنسی کے مطابق حملوں سے نشانہ بنائے گئے علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور درجنوں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ کئی مقامات پر آگ بھڑک اٹھنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

رپورٹوں کے مطابق یہ اسرائیلی حملے بیروت کے جنوب میں بنت جبیل اور بیروت کے جنوب مشرق میں واقع علاقوں پر بھی کیے گئے۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ اور غزہ پٹی میں اس کے فلسطینی اتحادی تنظیم حماس کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

یہ حملے اس وقت کیے گئے جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی اہلکاروں کے ساتھ اس لیے ملاقات کی تھی تاکہ لبنان میں جنگ ختم کرنے کے ممکنہ معاہدے پر بات چیت کی جا سکے۔ آئندہ منگل کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل اس بات چیت کو ایک اہم سفارتی کوشش قرار دیا جا رہا تھا۔

لبنانی وزیر اعظم کی جانب سے اسرائیل پر تنقید

لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی نے لبنان پر اسرائیلی حملوں میں ”وسعت‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات جنگ بندی کی کوششوں میں شامل ہونے سے انکار کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا، ”بیروت کے جنوبی مضافات کو تباہ کن حملوں کا نشانہ بنانا، یہ سب اس بات کے اشارے ہیں کہ اسرائیل جنگ بندی تک پہنچنے کی تمام کوششوں کی نفی کر رہا ہے۔‘‘

دریں اثناء لبنان کی سرکاری نیوز ایجنسی این این اے نے بتایا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے مشرقی شہر بعلبک کو بھی نشانہ بنایا، جہاں یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دیے گئے رومی دور کے کھنڈرات موجود ہیں۔

اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر برائے لبنان جینین ہینس پلاسشیرٹ نے کہا ہے کہ جنگ نے لبنانی ثقافتی ورثے کو ”گہری خطرے‘‘ میں ڈال دیا ہے۔

اسرائیلی پوزیشن مستحکم

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی لبنان میں شدید عسکری مہم اسے کسی معاہدے کے لیے ایک زیادہ مضبوط پوزیشن میں لے آئی ہے۔

جمعرات کو نیتن یاہو نے امریکی ایلچی آموس ہوخسٹائن اور بریٹ میک گرک سے کہا تھا کہ حزب اللہ کے ساتھ کسی بھی جنگ بندی معاہدے میں طویل المدتی بنیادوں پر اسرائیلی سلامتی کی ضمانت لی جائے۔

اے ایف پی کے مطابق ایک امریکی منصوبہ زیرغور ہے، جس میں حزب اللہ کو دریائے لیتانی کے شمال کی جانب پسپا ہونے اور اسرائیلی فوج کو پیچھے ہٹنے کا کہا گیا ہے، جب کی سرحد کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کے امن دستوں کی معاونت کے ساتھ لبنانی فوج کی تعیناتی کی تجویز دی گئی ہے۔

اس مسودے میں لبنان پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ حزب اللہ کو درآمد شدہ ہتھیاروں سے مسلح ہونے سے روکے، جب کہ اسرائیل بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے دفاع کا حق برقرار رکھے گا۔

لبنان میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں اور ہلاکتیں

جمعرات کو لبنان کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں کی گئی شیلنگ کے نتیجے میں چار تھائی مزدوروں سمیت سات اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ اے ایف پی کے مطابق تیس ستمبر سے لبنان میں جاری اسرائیلی زمینی آپریشن میں اب تک اٹھارہ سو انتیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس دوران اس کے 37 فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی عسکری کارروائیاں جاری
اسرائیلی فوج کے مطابق شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں درجنوں عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق جبالیہ اور نصیرات میں رات بھر جاری رہنے والی اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے۔

دوسری جانب امریکی، مصری اور قطری ثالث ایک طویل عرصے سے غزہ میں جنگ بندی اور وہاں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کی رہائی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ حماس کے ساتھ ”ایک ماہ سے کم‘‘ عرصے پر محیط جنگ بندی کی تجویز پر بات چیت جاری ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس دوران غزہ میں مغوی اسرائیلی شہریوں کو آزاد کیا جائے گا جب کہ اس کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے گی۔

تاہم حماس کی جانب سے جمعرات کے روز ایک اعلیٰ عہدیدار طاہر النونو نے کہا کہ ان کی تنظیم مختصر مدت کی جنگ بندی کو مسترد کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس جنگ کے مکمل اور مستقل خاتمے کی حمایت کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں بارہ سو سے زائد اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت اور تقریباﹰ ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیے جانے کے بعد اس جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے جاری بڑی زمینی اور فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ پٹی میں تینتالیس ہزار دو سو انسٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں