پشاور (نمائندہ ڈیلی اردو/ٹی این این/بی بی سی) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی تحصیل لوئر کرم کے علاقے اوچت کے نزدیک مسلح افراد کی مسافر گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
پولیس نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون بھی زخمی ہونی ہیں۔
واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد شناخت وہاب علی اور مشتاق کے ناموں سے ہوئی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہاب علی کے بہنوئی منظر نے بتایا کہ واقعے میں زخمی ہونے والی خاتون وہاب کی بیوی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاب کئی برسوں سے قطر کے شہر دوحہ میں رہائش پذیر تھے اور 15 سے 20 دن قبل پاکستان واپس پہنچے تھے۔
منظر نے بتایا کہ وہاب وطن واپس آنے کے بعد سے پاڑہ چنار میں اپنے گھر جانا چاہتے تھے لیکن راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ پشاور کے ایک ہوٹل میں رکے ہوئے تھے۔
آن کے مطابق وہاب نے آج بذریعہ گاڑِی اپنی بیوی کے ہمراہ پاڑہ چنار پہنچنے کی کوشش کی لیکن راستے میں ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں وہاب ہلاک جبکہ ان کی بیوی زخمی ہو گئیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ فورسز کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہے اور واقعے کی تحقیات کی جارہی ہے۔
ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق اہلِ تشیع مسلک سے ہے۔
پولیس نے موقع پر پہنچ کر ہلاک افراد کی نعشیں اور زخمی خاتون کو علی زئی ہسپتال منتقل کیا ۔
انتقامی کارروائی
دوسری جانب اس واقعہ کے فوراً بعد علی زئی کے قریب عرفانی نامی گاؤں میں مشتعل افراد نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ڈاڈکمر کے واقعہ کے بدلے میں چار افراد کو پکڑ لیا۔ ان افراد کا تعلق اپر کرم کے مختلف قبائیل سے تھا، جنہیں زندہ پکڑ کر اپنے پاس رکھا گیا ہے۔
سنٹرل کرم کی انتطامیہ نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے مقامی خبر رساں ایجنسی ٹی این این کو بتایا کہ جوں ہی ڈاڈ کمر میں ناخوشگوار واقع پیش آیا تو اس کے فورا بعد علی زئی کے گاؤں عرفانی کلے کے مشتعل افراد اپر کرم کے مینگل اور ځدران قبیلے سے تعلق رکھنے والے جہانگیر ځدران اورنسیم مینگل سمیت دو دیگر افراد کو زندہ پکڑ کر یرغمال بنا لیا۔
انکا مزید کہنا ہے کہ تحویل میں لئے جانے والے چاروں افراد کی زندگی خطرے میں ہیں، تاہم پولیس کو فوری اقدامات اٹھانے کو کہا ہے۔
ضلع کُرم میں 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ہوئے مسافر وین قافلے پر حملے کے نتیجے میں متعدد افراد کی ہلاکت کے بعد سے پاڑہ چنار، پشاور روڈ ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند کر دی گئی تھی۔ اس حملے کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاڑہ چنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر ہونے والے تنازع میں اب تک درجنوں افراد کی جان جا چُکی ہے۔
اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے۔ اس علاقے میں رواں برس ہونے والے پُرتشدد واقعات کے باعث زمین کا یہ علاقہ درجنوں افراد کی جان لے چُکا ہے اور متعدد افراد ان جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے اقتدار میں آنے اور سرحد پر باڑ لگنے سے پہلے لوگ متبادل راستے کے طور پر افغانستان سے ہو کر پاکستان کے دوسرے علاقوں میں میں داخل ہوتے تھے لیکن اب وہ متبادل راستے بند ہو چکے ہیں۔
جہاں شاہراؤں کی بندش کی وجہ سے علاقے میں حالات کشیدہ ہیں اور مریض علاج معالجے کے لیے پشاور یا کوہاٹ کے ہسپتال نہیں پہنچ پا رہے ہیں وہیں بیرونِ ملک جانے والے افراد بھی ایئر پورٹ نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ دوسری جانب بیرونِ ملک سے آنے والے وہ افراد جن کا تعلق پاڑہ چنار سے ہے وہ بھی اپنے گھر نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔