ایران کا سیستان-بلوچستان میں 18 افغان تاجک شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران کا کہنا ہے کہ سیستان-بلوچستان میں سکیورٹی آپریشنز میں 18 افغان تاجک شدت پسند مارے گئے ہیں۔

ایرانی میڈیا کے مطابق پاسداران انقلاب کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور نے ایران کے شہر زاہدان میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ راسک، چابہار اور پارود کے علاقوں میں مارے جانے والے خودکش بمبار تھے جو پیٹرول کے ٹینکرز کی آڑ میں ایران میں داخل ہوئے تھے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘کرائے کے جنگجو صیہونی حکومت کی مدد سے ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں موجود ہیں۔ ان جنگجوؤں نے ملک کے جنوب مشرق میں ہمارے لوگوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کی ہیں۔’

بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور نے مزید دعویٰ کیا کہ ان کے پاس تفصیلی معلومات ہیں کہ دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان گروہوں کو خطے میں عدم استحکام پھیلانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

تاہم ایران کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق کس گروہ سے تھا۔

یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی ایرانی فوجی اہلکار نے ملک کی سر زمین پر ‘افغان تاجک نژاد شدت پسند گروہ’ سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

تین روز قبل ایران کے وزیر داخلہ اسکندر مومنی نے صوبہ سیستان و بلوچستان کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔

انھوں نے ایران کی مشرقی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے منصوبے اور پاکستان اور افغانستان سے ملحقہ میرجاویہ کے علاقے کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا جائزہ لیا تھا۔

کئی کلومیٹر طویل نہروں کی تعمیر، مصروف سڑکوں اور وادیوں کے درمیان کنکریٹ کی کئی رکاوٹیں اور پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کئی کلومیٹر طویل دیواروں کی تعمیر ان اقدامات میں شامل ہیں جو ایران نے گزشتہ برسوں میں ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے اٹھائے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں