واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ووٹرز سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے روز سے ہی غیر قانونی تارکینِ وطن کی ملک سے بے دخلی کی ایک بڑی مہم شروع کریں گے۔
انہوں نے ملک کی جنوبی سرحد پر غیرمعمولی اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ تارکینِ وطن کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کے لیے ‘متنازع’ پالیسیوں کو نافذ کریں گے اور نئے آنے والوں کا امریکہ میں داخلہ بھی روکیں گے۔
ٹرمپ نے منگل اور بدھ کی شب فلوریڈا میں خطاب کے دوران بھی امیگریشن سے متعلق اپنی خیالات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ “ہم اپنی سرحدوں کو ٹھیک کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ واپس جائیں اور ہم انہیں واپس جانے دیں گے۔ انہیں قانونی طریقے سے امریکہ آنا ہو گا۔”
امریکہ میں رہنے والے لاکھوں تارکینِ وطن کو دوبارہ انٹری کے مراحل سے گزارنے کے لیے کئی قانونی اور لاجسٹک چیلنجز درپیش ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ میں دوبارہ داخلے کی سخت پالیسی کی وجہ سے بغیر دستاویز رہنے والے تارکینِ وطن کو قانونی عمل سے گزرنے اور اپنی باری کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ویزوں کی سالانہ حد بندی اور ملکوں کا ویزہ کوٹہ بھی ویزوں کے اجرا میں التوا کی بڑی وجہ ہے۔ ویزے کے حصول کے لیے بعض امیدوار ایک دہائی سے انتظار کر رہے ہیں۔
ہیبریو امیگریشن ایڈ سوسائٹی کے سی ای او مارک ہیٹفیلڈ کہتے ہیں کہ “یہ یقین موجود ہے کہ ایک قطار ہے اور لوگوں کو اس قطار میں کھڑا ہونا چاہیے۔ بعض اوقات کوئی قطار ہوتی ہی نہیں ہے۔”
ویزوں کے اجرا سے متعلق اسی قسم کے مسئلے کا ذکر مائیگریشن پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت مختلف ویزا کی اقسام ہیں اور ہر قسم کے ویزے کے لیے لوگوں کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔
امریکہ میں 1996 میں ہونے والی امیگریشن ریفارمز اور امیگریشن ریسپانسبلٹی ایکٹ میں غیر قانونی طور پر امریکہ میں طویل قیام کرنے والوں کو ملک میں دوبارہ داخلے سے روکتا ہے۔
اگر ایسے تارکینِ وطن جو دوبارہ اپنے ملک جا کر قانونی طریقے سے واپس امریکہ آنا چاہتے ہیں، ان کے لیے قانون یہ ہے کہ 180 دن سے زائد یا ایک سال سے کم عرصے تک امریکہ میں غیرقانونی قیام کرنے والوں کے امریکہ میں دوبارہ داخلے پر تین سال کی پابندی ہے۔ ایسے تارکینِ وطن جو غیرقانونی طور پر امریکہ میں ایک سال سے زائد سکونت اختیار کر چکے ہیں ان کے امریکہ میں دوبارہ داخلے پر دس سال کی پابندی ہے۔
غیر قانونی قیام میں عام طور پر طویل قیام اور جانچ پڑتال کے بغیر امریکہ میں داخل ہونا بھی شامل ہے۔
امریکی تاریخ کی سب سے بڑی بے دخلی کی مہم
ڈونلڈ ٹرمپ اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اپنی پہلی مدتِ صدارت کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں تارکینِ وطن کو ملک سے بے دخل کریں گے۔
ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت کے دوران نیشنل گارڈ کی مدد سے غیر قانونی تارکینِ وطن کی پکڑ دھکڑ کے ساتھ ‘ایلین اینیمیز ایکٹ’ کا بھی استعمال کیا تھا۔ اٹھارویں صدر کا یہ قانون صدر کو ملک پر بوجھ بننے والے غیر ملکیوں کی بے دخلی کا اختیار دیتا ہے۔
ٹرمپ امریکہ میں بغیر دستاویزات رہنے والوں کی تعداد میں بڑا کمی کرنا چاہتے ہیں اور ان کے حامی اسے قانون پر عمل درآمد کے طور پر دیکھتے ہیں جب کہ مخالفین یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس عمل سے قانونی جنگ اور لاجسٹک مسائل پیدا ہوں گے۔
امریکن امیگریشن کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جرمی رابنس کہتے ہیں کہ کسی بھی صدر کو بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکینِ وطن کی بے دخلی کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے بھاری اخراجات آئیں گے۔ ان کے خیال میں ایسا کرنا ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
تارکینِ وطن کی بے دخلی سے متعلق رابنس نے وائس آف امریکہ کو بذریعہ ای میل ایک جواب میں بتایا کہ قانون سازوں اور امریکی عوام کو سمجھنے میں یہ مشکل درپیش ہے کہ تارکینِ وطن کی بے دخلی کے معاملے میں مزید کیا چیزیں شامل ہوں گی۔
ان کے خیال میں اس عمل کے لیے امریکی عوام کے ٹیکس کے اربوں ڈالرز خرچ ہوں گے، جیلوں میں قید ہزاروں افراد کا معاملہ درپیش ہو گا، ہزاروں خاندان خوف میں مبتلا ہوں گے اور ملک بھر میں مختلف کمیونیٹیز میں ایک ہیجانی صورتِ حال پیدا ہو گی۔
سفری پابندی، پیدائشی شہری حقوق اور دیگر
ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت میں شروع ہونے والے ‘میکسیکو میں ہی قیام’ کے پروگرام کی دوبارہ بحالی کا امکان ہے۔
یہ پروگرام امریکہ میں پناہ لینے والوں کو میکسیو میں انتظار پر مجبور کرتا ہے تاوقتیکہ ان کی پناہ کی درخواست پر کارروائی مکمل نہ ہوجائے۔
تارکینِ وطن کی فوری طور پر بے دخلی اور میکسیکو کی سرحد سے امریکہ داخلے پر پابندی سے متعلق پالیسیوں کی دوبارہ بحالی کا بھی امکان ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک اور وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ وہ بائیڈن حکومت کی جانب سے تارکینِ وطن کے مخصوص گروپس کو قانونی طریقے سے امریکہ میں داخلے کی اجازت کو ختم کر دیں گے۔
بائیڈن حکومت نے کیوبا، ہیٹی، نکاراگوا اور وینزویلا سے ماہانہ لگ بھگ 30 ہزار تارکینِ وطن کو امریکہ میں قانونی طریقے سے آنے کی اجازت دی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس کا خاتمہ کریں گے۔
امریکہ میں داخل ہونے والوں کی سخت جانچ پڑتال سے متعلق ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سفری پابندی والے ملکوں کی فہرست میں اضافہ کریں گے اور ممالک کی ’نظریاتی جانچ پڑتال‘ متعارف کروائیں گے جس کے تحت ایسے افراد پر پابندی عائد کی جائے گی جو ان کے خیال میں متعصب، نفرت کا پرچار کرنے والے، غیر معقول اور جنونی ہوں۔
ٹرمپ کی انتخابی مہم کا خیال ہے کہ مذکورہ اقدامات امریکہ کی قومی سلامتی کو مضبوط بنائیں گے۔ البتہ اس طرح کے عزائم نے شہریوں کی آزادی اور تفریق کے تحفظات کو جنم دیا ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا ہے کہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر رہنے والے والدین کے نو مولود بچوں کو امریکی شہریت کے حق کے خاتمے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کو اپنی امیگریشن منصوبے پر بعض حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن انہیں قانونی ماہرین اور حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے عملبردار کہتے ہیں بڑے پیمانے پر تارکین کی بے دخلی اور سفری پابندی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور عدالتی مسائل ہو سکتے ہیں۔
ہیٹفیلڈ نے کہا کہ قانونی امیگریشن پر ٹرمپ کی نئی انتظامیہ جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو خدشات ہیں۔
دوسری جانب تارکینِ وطن نوجوانوں کی سب سے بڑی امریکی امیگریشن تنظیم ‘یونائیٹڈ وی ڈریم’ کے پولیٹیکل ڈائریکٹر مچلی منگ نے کہا ہے کہ وہ تارکینِ وطن خاندانوں کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ٹرمپ اپنا عہدہ سنبھال لیں گے تو انہیں یاد دہانی کرائی جائے گی کہ وہ تارکینِ وطن سے متعلق جو پالیسی نافذ کرنا چاہتے ہیں اس سے وہ اپنی کمیونیٹیز کے تحفظ کے لیے لڑنے کو تیار ہیں۔