غزہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) غزہ کے ایک اہم اور معروف اسلامی عالم نے حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک غیر معمولی جاری کیا ہے۔
حماس کی جانب سے گذشتہ برس سات اکتوبر کو ’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘ کے نام سے اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس نے فلسطینی سرزمین میں تباہ کن جنگ کو جنم دیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سلمان الداعی کا فتویٰ چھ صفحات پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ حملہ جہاد سے متعلق اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘
پروفیسر ڈاکٹر سلمان الداعی، جو حماس سے منسلک اسلامی یونیورسٹی غزہ میں فیکلٹی آف شریعہ اور قانون کے سابق ڈین ہیں، خطے کے سب سے زیادہ قابل احترام مذہبی عالم میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی قانونی رائے غزہ کی بیس لاکھ آبادی جن میں زیادہ تر سنی مسلمان ہیں میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔
مذہب اسلام میں فتویٰ ایک قابل مذہبی عالم کی طرف سے ایک غیر پابند اسلامی قانونی حکم ہے جو عام طور پر قرآن یا سنت یعنی پیغمبر اسلام کے اسوہ حسنہ کی روشنی پر مبنی ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سلمان الداعی نے اپنے فتوے میں مزید کہا ہے کہ ’اگر جہاد کے ستون، اسباب یا شرائط پوری نہیں ہوتیں تو لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے سے بچنے کے لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا اندازہ لگانا ہمارے ملک کے سیاست دانوں کے لیے آسان ہے، اس لیے اس حملے سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔‘
انھوں نے فتوے میں مزید کہا کہ ’سات اکتوبر کے حملے کے بعد عام شہریوں کے بنیادی انفراسٹریکچر کی وسیع پیمانے پر تباہی اور غزہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کا مطلب ہے کہ یہ اسلام کی تعلیمات سے براہ راست متصادم ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حماس ’جنگجوؤں کو غیر محفوظ (فلسطینی) شہریوں کے گھروں اور ان کی پناہ گاہوں سے دور رکھنے، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں جن میں سیکورٹی، اقتصادی طور پر، صحت، اور تعلیم، کافی خوراک سمیت جہاں تک ممکن ہو تحفظ فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داریوں میں ناکام رہی ہے۔‘
حماس کے لیے یہ فتویٰ باعث شرمندگی اور ممکنہ طور پر تنقید کی نمائندگی کرتا ہے، خاص طور پر جب یہ گروہ اکثر عرب اور مسلم ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مذہبی دلائل کے ذریعے اسرائیل پر اپنے حملوں کا جواز پیش کرتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سلمان الداعی نے اپنے فتوے میں ان قرآنی آیات اور سنت کا حوالہ دیا ہے جو جہاد کے لیے سخت شرائط کا تعین کرتی ہیں اور ایسے اقدامات سے گریز کرنے کی تلقین کرتی ہیں جو دشمن کو ضرورت سے زیادہ اور غیر متناسب ردعمل پر راغب کرے۔ ان کا فتویٰ اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق، فوجی کارروائی سے ایسا ردعمل پیدا نہیں ہونا چاہیے جو کارروائی کے مطلوبہ مقاصد سے زیادہ ہو۔
انھوں نے اپنے فتوے میں اس بات پر بھی زور دیا کہ مسلمان رہنما ان لوگوں کی جو لڑائی میں شامل نہیں ہے کی حفاظت اور بہبود سمیت انھیں کھانا، ادویات اور پناہ دینا یقینی بنانے کے پابند ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’خدا کے نزدیک انسانی زندگی مکہ سے زیادہ قیمتی ہے۔‘
یاد رہے کہ سات اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک جبکہ 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل نے اس کے ردعمل میں غزہ پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس میں اب تک 43ہزار 400 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
پروفیسر سلمان الداعی کے اعتدال پسند نظریات حماس کے مسلح مزاحمت کے نقطہ نظر اور شیعہ حکومت والے ایران کے ساتھ تعلقات سے متصادم ہیں۔