یورپی ممالک کے دفاعی اخراجات مزید اضافہ

لندن (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/ڈی پی اے) چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ سے جمعہ 8 نومبر کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل جب روس نے یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا کو زبردستی اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر لیا تھا، اور پھر دو سال قبل فروری میں جب روس نے صدر پوٹن کے حکم پر یوکرین میں وہ فوجی مداخلت کی جو ابھی تک جاری روسی یوکرینی جنگ کی وجہ بنی، ان دونوں واقعات کے بعد سے یورپی اقوام کے دفاعی اخراجات ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔

اس بارے میں برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک علوم کی تیار کردہ ایک رپورٹ جمعے کے روز پراگ میں ہونے والے ایک تین روزہ اجلاس کے پہلے دن پیش کی گئی۔

چیک دارالحکومت میں اس تین روزہ اجتماع کا مقصد یورپ اور بحر اوقیانوس کے پار امریکہ اور کینیڈا کی عسکری صلاحیتوں کا جائزہ لینا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی ممالک اگرچہ اپنے دفاع کے لیے ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ مالی وسائل خرچ کر رہے ہیں، تاہم انہیں روس کی وجہ سے درپیش خطرات کا سامنا کرنے کے لیے اب بھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

نیٹو کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے یورپی کاوشیں

لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیزکی اس رپورٹ میں کہا گہا ہے، ”صرف مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ہی اپنی جنگ لڑنے کی اہلیت اور کسی بھی فریق کو خود پر حملہ کرنے سے روکنے کے لیے اپنی صلاحیت میں واضح اضافہ نہیں کیا، بلکہ اس تنظیم کے یورپی رکن ممالک نے بھی اپنی عسکری تیاریوں میں پائی جانے والی خامیوں کے تدارک اور اپنی فیصلہ کن عسکری اہلیت میں اضافے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔‘‘

ساتھ ہی آئی آئی ایس ایس کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے، ”یہ بات تاہم حیران کن ہے کہ عشروں تک اپنے دفاعی شعبوں میں ضرورت سے بہت کم سرمایہ کاری کرنے اور دفاع کو نظر انداز کر دینے کی سوچ کے بعد، ابھی مزید بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے حالانکہ اب تک اس سلسلے میں کافی پیش رفت دیکھنے میں آ بھی چکی ہے۔‘‘

ہنگری میں نیٹو سیکرٹری جنرل اور یورپی رہنماؤں کا اجلاس

لندن میں قائم اسٹریٹیجک علوم کے بین الاقوامی ادارے نے پراگ میں آٹھ نومبر کو اپنی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت پر جاری کی، جب ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں یورپی یونین کے رہنما اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک رُٹے بحر اوقیانوس کے آر پار باہمی تعلقات، خاص کر دفاعی شعبے میں تعاون کا نئے سرے سے جائزہ لے رہے تھے۔

بوڈاپسٹ میں یورپی رہنماؤں اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل کی یہ مشاورتی ملاقات اس امید کے ساتھ ہو رہی ہے کہ پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اگلے سال جنوری میں جب ٹرمپ دوبارہ صدر بنیں گے، تو ان کی پالیسی کو اس اختلاف رائے کی وجہ نہیں بننا چاہیے، جیسا ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران دیکھا گیا تھا۔

مزید یہ کہ اپنے صدارتی عہدے کی دوسری مدت کے دوران ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپ کو ایک ساتھ مل کر روس کے بارے میں ایک سخت مگر مشترکہ موقف اپنانا چاہیے، نہ کہ ٹرانس اٹلانٹک تعلقات میں وہ کھچاؤ اور کشیدگی نظر آئیں، جو ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران دیکھنے میں آئے تھے۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا کہا تھا؟

جہاں تک امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے کی انتخابی مہم کا تعلق ہے، تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مواقع پر اپنی تقاریر میں دھمکیاں دی تھیں کہ وہ دوبارہ صدر بن کر ایسے اقدامات کریں گے، جو یورپ بھر کی اقوام کے لیے کلیدی نوعیت کے نتائج کی وجہ بنیں گے۔

تب ٹرمپ نے ان اقدامات میں سے کسی کی بھی زیادہ تفصیل تو نہیں بتائی تھی، لیکن ان کی تقاریر میں ایسی دھمکیاں واضح تھیں کہ امریکہ کی یورپی یونین کے ساتھ تجارتی جنگ بھی ممکن ہے، امریکہ نیٹو کے دائرہ کار میں خود پر عائد ہونے والی ذمے داریوں سے دستبردار بھی ہو سکتا ہے اور یہ کہ یوکرین کی روس کے خلاف جنگ میں، واشنگٹن کی طرف سے یوکرین کے لیے بھرپور سیاسی اور دفاعی مدد کی امریکی پالیسی اپنی اساس میں قطعی بدل بھی سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں