کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ سندھ کی پولیس نے چھ اکتوبر کی رات کراچی ایئرپورٹ سے باہر آنے والے چینی انجینئرز پر جان لیوا حملے میں ملوث ایک خاتون سمیت تین سہولت کار گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
حملے کی ذمے داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی جس میں دو چینی باشندوں سمیت تین افراد ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے تھے۔
واقعے میں ایک درجن کے قریب گاڑیاں تباہ ہو گئی تھیں۔ وزیرِ داخلہ سندھ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے لیے جامعات کے پڑھے لکھے بچوں کا استعمال کرنا باعثِ تشویش ہے اور اس پر مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ادھر سیکیورٹی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے شہریوں پر حملے میں ملوث ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ہے۔
‘تحقیقات کا آغاز حملہ آور کے بازو سے ہوا’
پیر کو کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار نے بتایا کہ معاملے کی باریک بینی سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد یہ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور تینوں ملزمان کو عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکے میں تحقیقات کا آغاز خود کش بمبار کے بازو سے ہوا جو وہاں سے ملا تھا۔ فنگر پرنٹس سے معلوم ہوا کہ خودکش دھماکہ کرنے والے کا نام شاہ فہد عرف آفتاب ہے۔
شاہ فہد عرف آفتاب نے کراچی کے ایک شو روم سے وہ گاڑی خریدی تھی جو دھماکے میں استعمال ہوئی اور اس کے لیے 71 لاکھ روپے کی رقم ادا کی گئی۔ یہ رقم حب شہر کے ایک بینک کے ذریعے شاہ فہد کو منتقل کی گئی تھی۔ اس کے لیے بینک کے عملے کے رکن کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
‘خود کش بمبار کراچی کی سڑکوں پر دھماکہ خیز گاڑی سمیت گھومتا رہا’
انہوں نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گاڑی خریدنے کے بعد یہ حب کے راستے دوبارہ بلوچستان گئی جہاں پر دھماکہ خیز مواد اس میں فٹ کیا گیا۔
اس کے بعد گل نساء نامی ایک خاتون کے ہمراہ یہ گاڑی چار اکتوبر کو دوبارہ کراچی میں داخل ہوئی۔ گاڑی میں خاتون کی موجودگی کے باعث اس گاڑی کی تلاشی نہیں لی گئی۔
تحقیقاتی ٹیم نے مزید بتایا کہ کراچی پہنچنے کے بعد ملزم نے صدر میں ایک ہوٹل میں قیام کیا اور چھ اکتوبر کو ہوٹل سے چیک آوٹ کرنے کے بعد اپنے دوسرے ساتھی کو جیل چورنگی سے پک کیا اور ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوئے۔
کئی بار ایئرپورٹ اور شہر کے ارد گرد چکر لگانے کے بعد یہ لوگ گاڑی لے کر میریٹ ہوٹل کے قریب ایک پارک میں آئے جہاں خودکش بمبار نے اپنی آخری ویڈیو ریکارڈ کرائی اور اسے بی ایل اے کے کمانڈر کو بھیجا۔
حکام کے مطابق حملے کی رات تقریباً ساڑھے نو بجے کے قریب حملہ آور اور اس کا ساتھی ایئرپورٹ پہنچے۔
حملہ آور اور اس کا ایک ساتھ گاڑی کے اندر بیٹھے رہے اور تیسرا ساتھی جاوید ایئرپورٹ میں پیدل داخل ہوا۔ حکام کے مطابق دھماکے کا ماسٹر مائنڈ جاوید عرف سمیر تھا جس نے حملے سے قبل ایئرپورٹ اور ملحقہ علاقوں کی ریکی بھی کی تھی اور اسی نے خودکش حملہ آور کو فون کال کے ذریعے چینی شہریوں کی ایئرپورٹ سے نکلنے کی اطلاع دی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جاوید اور اس کے دیگر ساتھی بیرون ملک مقیم بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی) کے لیڈر بشیر زیب سے رابطے میں تھے۔
کیا ایئرپورٹ حملہ انٹیلی جینس ناکامی تھی؟
ایک سوال کے جواب میں وزیرِ داخلہ نے حملے سے قبل معلومات نہ ملنے پر انٹیلی جینس کی ناکامی کے الزامات کو مسترد کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے صوبے میں سی پیک یا نان سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے تمام چینی باشندوں کے تحفظ کے لیے حکمتِ عملی کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان کے بقول اس طرح کے واقعات تو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہو سکتے ہیں۔ صوبائی حکومت اس بارے میں جانفشانی سے کام کر رہی ہے اور پولیس میں اس کے لیے خصوصی سیل بھی قائم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کے پیچھے بلوچستان اور بیرون ملک موجود دہشت گردوں کا نیٹ ورک موجود ہے جو پاکستان، ملک مخالف عناصر کے ساتھ مل کر ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔
حکام کے مطابق اس حملے کا مقصد چین پاکستان باہمی تعلقات کو خراب کرنا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں پر کام کو سبوتاژ کرنا تھا۔
چینی باشندوں پر حملے میں ملوث ملزمان کو سزا دینے کے لیے کیا پاکستان دباؤ میں ہے؟
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کی جانب سے پاکستان پر تحقیقات کرنے اور ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے دباؤ فطری ہے۔
اُن کے بقول اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے چین کا ردِعمل کافی جارحانہ تھا۔ خیال رہے کہ چینی شہریوں پر حملے کے بعد جاری بیان میں چین کی جانب سے واقعے کی مکمل تحقیقات کرنے، قصور واروں کو سخت سزا دینے اور پاکستان میں چینی شہریوں، اداروں اور منصوبوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کو کہا گیا تھا۔
رواں سال مارچ میں خیبر پختونخوا میں داسو کے مقام پر زیرِ تعمیر ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی گاڑی کو بھی ٹارگٹ کیا گیا تھا جس میں پانچ چینی انجینئرز سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
سن 2021 میں بھی داسو کے مقام پر ہی چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا گیا تھا جب کہ اپریل 2022 میں کراچی یونی ورسٹی میں چینی زبان سکھانے والے مرکز کے باہر ہونے والے خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ جان کی بازی ہار گئے تھے۔
چند روز قبل ایک نجی ٹیکسٹائل مل کے سیکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے دو چینی شہری زخمی ہو گئے تھے۔
‘بلوچستان میں شورش کا مسئلہ صرف سیکیورٹی اقدامات نہیں’
دفاعی تجزیہ کار اور سلامتی امور کے ماہر لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ یہ خوش آئند ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے کراچی دھماکے کے سہولت کاروں کو گرفتار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں کہ محض سیکیورٹی اقدامات سے حل کر لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شورش کے مسائل پر قابو پائے بغیر کالعدم تنظیم کے حملوں پر قابو پانا مشکل ہے اور اس مقصد کے لیے ایک جامع نقطۂ نظر اپنانے کی ضرورت ہے جس میں سب سے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ بلوچستان میں لوگوں کو سیاسی اور معاشی انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کام فوج نہیں بلکہ سیاست دان ہی کر سکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں قائدانہ کردارا ادا کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس عمل ہی سے دہشت گردوں کے لیے لوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور کسی خودکش بمبار بننے کے لیے تیار کرنا مشکل بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے حل کے لیے دوسرا یہ دیکھنا ہو گا کہ دہشت گردی کی ان کارروائیوں کے پیچھے کون لوگ ملوث ہیں۔ انہیں کن گروپس اور کن ممالک کی جانب سے سپورٹ حاصل ہے۔
وزیر داخلہ ضیا لنجار نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے خواتین اور پڑھے لکھے طلبہ کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خود کش بمبار شاہ فہد کا کوئی کریمینل ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پولیس ایسے شخص پر پھر کیسے شک کا اظہار کر سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد طلبہ کی ذہن سازی کر کے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں سندھ اور بلوچستان کی یونی ورسٹیز میں زیرِ تعلیم طلبہ کو استعمال کیا جا رہا ہے، انہوں نے بتایا کہ اس کے تدارک کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔