لندن (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) برطانوی عراقی ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ اس نے سن 636 عیسوی میں اسلامی تاریخ کی اہم جنگ قادسیہ کے اصل مقام کا پتہ لگا لیا ہے۔ جنگ قادسیہ میں فتح کا اسلامی فتوحات اور توسیع میں اہم کردار ہے۔
اس تاریخی مقام کا سن ستر کی دہائی میں امریکی خفیہ سیٹلائٹوں سے اتاری گئی تصویروں سے پتہ چلا، انہیں اب ڈی کلاسیفائی یا عام کر دیا گیا ہے۔
جنگ قادسیہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر فاروق کے دور میں 636 عیسوی میں ہوئی تھی۔ اسلام کی ابتدائی فتوحات میں سے اسے ایک بڑا معرکہ کہا جاتا ہے، جو مسلمانوں اور ساسانی فارسیوں کے درمیان ہوئی۔
میسوپوٹیمیا جسے آج عراق کے نام سے جانا جاتا ہے میں ہونے والی یہ جنگ تین دن جاری رہی۔ مسلمانوں کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص تھے جب کہ ساسانیوں کا سردار رستم تھا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور ایران مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ یہ فتح پورے خطے میں اسلام کے پھیلاؤ میں فیصلہ کن ثابت ہوئی۔
برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی اور القادسیہ یونیورسٹی کے ماہرین آثار قدیمہ کی ایک مشترکہ ٹیم کو اس مقام کا پتہ چلا، جب وہ درب زبیدہ کا نقشہ تیار کرنے کے لیے ریموٹ سینسنگ کررہی تھی۔ درب زبیدہ کو ایک ہزار سے زیادہ سال پہلے کوفہ سے مکہ تک حج کے لیے راستے کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ اس انکشاف کو منگل کے روز انٹیکوئٹی نامی جریدے میں شائع کیا گیا ہے۔
ماہرین کو جنگ قادسیہ کے مقام کا پتہ کیسے چلا
ماہرین کی ٹیم نے راستے کی نقشہ سازی کرتے ہوئے، دیکھا کہ عراق کے جنوبی صوبہ نجف میں کوفہ سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب میں ایک جگہ، ایک صحرائی علاقہ جس میں زرعی زمین کے بکھرے ہوئے پلاٹ ہیں- اس میں ایسی خصوصیات تھیں جو تاریخی کتابوں میں قادسیہ کی جنگ کی تفصیلات سے کافی ملتی ہیں۔
ڈرہم یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے ریموٹ سینسنگ کے ماہر ولیم ڈیڈمین نے کہا کہ سرد جنگ کے زمانے کی سیٹلائٹ تصاویر مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے ماہرین آثار قدیمہ کی طرف سے عام طور پر استعمال ہونے والے ٹولز ہیں، کیونکہ پرانی تصاویر اکثر ایسی خصوصیات کو ظاہر کرتی ہیں جو تباہ یا تبدیل ہو چکی ہیں اور جو موجودہ دور کی سیٹلائٹ تصاویر پر ظاہر نہیں ہو پاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ نے گزشتہ 50 سالوں میں زرعی توسیع اور شہری توسیع دونوں میں بہت ترقی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970 کی دہائی کی تصاویر میں قادسیہ کے مقام پر کچھ امتیازی خصوصیات، جیسے ایک مخصوص خندق، “زیادہ صاف اور واضح” تھیں۔
زمین پر ایک سروے نے نتائج کی تصدیق کی اور ٹیم کو اس بات پر قائل کیا کہ انہوں نے مقام کی صحیح شناخت کی ہے۔
جامعہ القادسیہ کے آثار قدیمہ کے پروفیسر جعفر جوثری نے کہا کہ اس کی اہم خصوصیات ایک گہری خندق، دو قلعے اور ایک قدیم ندی تھی جسے مبینہ طور پر فارس کے فوجیوں نے بنایا تھا۔ سروے ٹیم کو مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے بھی ملے جو جنگ قادسیہ کے زمانے کے عین مطابق تھے۔
صدام حسین کی دور میں قادسیہ جنگ کا سیاسی مفہوم
جوثری نے کہا کہ ان کی نسل کے سبھی عراقی، جو صدام حسین کے دور حکومت میں پروان چڑھے، اس لڑائی کی تمام تر تفصیلات سے واقف ہیں۔
صدام حسین کے دور میں اس جنگ کے سیاسی مفہوم تھے- عراق 1980 کی دہائی کے بیشتر حصے میں ایران کے ساتھ تباہ کن جنگ میں مصروف تھا۔ صدام حسین جنگ قادسیہ کی طرف اشارہ کرتے تھے جو عراق کی فتح کی علامت ہے۔
اس زمانے میں پلے بڑھے زیادہ تر بچوں کی طرح، جوثری نے کہا کہ انہوں نے اس جنگ کے بارے میں ایک مشہور فلم متعدد بار دیکھی ہے کیونکہ یہ ٹیلی ویژن پر باقاعدہ دکھائی جاتی تھی۔
صدام کے بعد کے دور میں، جنگ قادسیہ کے بارے میں عراقیوں کے خیالات ایران کے تئیں ان کے جذبات کی بنیاد پر مختلف ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، اس جنگ کے کچھ سیاسی اور مذہبی سیاق و سباق ہیں، کیونکہ اب، یقیناً، عراق میں ہمارے ہاں مذہبی اختلافات، نسلی اختلافات، سیاسی اختلافات ہیں اور ہم ہر چیز کو اپنے اختلافات کی بنیاد پر پڑھتے یا دیکھتے ہیں۔”
جوثری نے مزید کہا، “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ایک بہت اہم جنگ ہے، ایک فیصلہ کن جنگ ہے، اور ہم سب اس کے بارے میں جانتے ہیں۔”
جوثری نے کہا کہ ٹیم آنے والے دنوں میں اس جگہ پر کھدائی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔