افغانستان: طالبان نے مبینہ قاتل کو سرِ عام سزائے موت دے دی

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) افغانستان میں طالبان حکام نے بدھ کو ایک مبینہ قاتل کو سرِ عام سزائے موت دی ہے۔ طالبان کے مطابق یہ سزا قصاص کے اسلامی اصول کے تحت دی گئی ہے۔

طالبان کی سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر کہا ہے کہ یہ سزا صوبۂ پکتیا کے دارالحکومت گردیز کے اسپورٹس اسٹیڈیم میں دی گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق سزائے موت دیکھنے کے لیے صوبائی حکومت نے طالبان کے عبوری وزیرِِ داخلہ سراج الدین حقانی سمیت سینئر سویلین، جوڈیشل اور ملٹری حکام اور عوام کو بھی دعوت دی تھی۔

حکام نے سزائے موت دیکھنے آنے والوں پر کیمرے یا موبائل فونز لانے پر پابندی لگائی تھی۔

یہ سزائے موت کیسے دی گئی، اس بارے میں طالبان حکام کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ البتہ موقع پر موجود خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے ایک صحافی کے مطابق گردیز میں ہزاروں افراد کے سامنے متاثرہ خاندان کے ایک فرد نے ‘مجرم’ کو سینے میں تین گولیاں ماریں۔

سزا پانے والے شخص کی شناخت محمد ایاز اسد کے نام سے ہوئی ہے جس نے مبینہ طور پر طالبان سیکیورٹی فورس کے رکن کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔

طالبان حکومت کے سرکاری ٹائٹل کے ساتھ جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ قصاص کا حکم جاری اور اسے منظور کرنے سے قبل اسلامی امارات کی تین مرحلوں پر مشتمل فوجی عدالت نے اس کیس کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور اس کی جانچ کی۔

واضح رہے کہ طالبان حکومت کو سرکاری سطح پر کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔

طالبان کے اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے اور شریعت کی اپنی تشریح پر مبنی فوجداری نظامِ انصاف پر عمل درآمد کے بعد سے افغانستان میں یہ چھٹی سرِِعام سزائے موت ہے۔

اقوامِ متحدہ اس عمل کو “زندگی کے بنیادی حق سے متصادم” اور “ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کی ایک شکل” کے طور پر بیان کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود طالبان حکومت ان سزاؤں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

طالبان نے افغانستان بھر میں سینکڑوں مرد و خواتین کو زنا، ہم جنس پرستی، چوری اور ڈکیتی جیسے “غیر اخلاقی جرائم” پر سرِ عام کوڑے مارنے کی سزائیں بھی دی ہیں۔

طالبان سپریم کورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف اکتوبر میں خواتین سمیت تقریباً 100 افغان شہریوں کو سرِ عام کوڑے مارے گئے اور اس طرح کے جرائم پر چھ ماہ سے دو سال تک کی قید کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔

اقوامِ متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے جسمانی سزا کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اسے روکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں