واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/ اے ایف پی/اے پی) امریکی ریاست ورجینیا کی ایک وفاقی عدالت نے منگل کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں ایک امریکی دفاعی ٹھیکیدار کو حکم دیا کہ وہ سن 2003-2004 کے دوران عراق کی معروف ابو غریب جیل میں تشدد کا نشانہ بننے والے تین عراقی مردوں کو 42 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کرے۔
آٹھ افراد پر مشتمل جیوری نے اس کیس میں ‘سی اے سی آئی پریمیئر ٹیکنالوجی’ کو قیدیوں پر ہونے والے تشدد میں اس کے کردار کے لیے اسے ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کیس کا تعلق اس جنگ سے ہے جب امریکہ افغانستان اور پھر عراق میں القاعدہ کے خلاف بر سر پیکار تھا۔
عدالت نے سہیل الشماری، صلاح العجائیلی اور اسد الزوبی، متاثرین میں سے ہر ایک کو، زیادتی کے لیے بطور ہرجانے کے 30 لاکھ ڈالر اور تعزیری ہرجانے کے طور پر 11 ملین ڈالر دینے کا حکم دیا۔
ذمہ دار کون ہے، امریکی حکومت یا ٹھیکیدار؟
مدعا علیہان کے دعوے کے علاوہ کسی بھی ٹھیکیدار کا ان سے براہ راست رابطہ نہیں تھا۔ ورجینیا میں قائم فرم سی اے سی آئی کے وکلاء کا استدلال تھا کہ ابو غریب میں قیدیوں کے ساتھ جو بھی سلوک ہوا اس کے لیے کمپنی ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ وہ تو امریکی فوج کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر اس قانونی اصول کے تحت کام کر رہی تھی جسے “ادھار پر لیے گئے ملازم” کے طور پر جانا جاتا ہے۔
زیادتی کا شکار تینوں عراقی شہریوں نے گواہی دی تھی کہ انہیں جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کا سر ڈھانپ کر برہنہ حالات میں زمین پر ڈال دیا جاتا تھا اور پھر ان کے ساتھ مار پیٹ، جنسی زیادتی اور الیکٹرک شاکس دینے سمیت کتوں سے نچوانے جیسی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایسی زیادتیوں کے ساتھ ہی انہیں اکثر و بیشتر بہت ہی سخت اور تناؤ کی پوزیشن پر کھڑے رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔
صلاح العجائیلی نے صحافیوں کے نام جاری ایک تحریری بیان میں کہا، “آج کا دن میرے اور انصاف کے لیے بہت بڑا دن تھا۔ میں نے اس دن کا طویل انتظار کیا۔”
ان کا مزید کہنا تھا، “اس مقدمے میں یہ فتح صرف ایک کارپوریشن کے خلاف تین مدعیان کی نہیں ہے، بلکہ یہ جیت ہر اس شخص کے لیے ایک چمکتی ہوئی روشنی ہے جس پر ظلم کیا گیا ہو اور یہ کسی بھی کمپنی یا ٹھیکیدار کے لیے یہ سخت تنبیہ بھی ہے، جو تشدد اور زیادتیوں کی مختلف شکلوں پر عمل پیرا ہو۔”
ایک عراقی ادارے مرکز برائے آئینی حقوق کے وکیل بحر اعظمی، جنہوں نے مدعیان کی جانب سے مقدمہ دائر کیا تھا، نے اس فیصلے کو “انصاف اور احتساب کا ایک اہم اقدام” قرار دیا۔
اعظمی نے مدعیان کی ثابت قدمی کے لیے ان کی تعریف کی اور کہا کہ “خاص طور پر انہوں نے ان تمام رکاوٹوں کا سامنا کیا، جو سی اے سی آئی نے ان کے راستے میں ڈالنے کی کوشش کی۔”
اس سلسلے میں مقدمہ پہلی بار سن 2008 میں ہی دائر کیا گیا تھا، تاہم چونکہ کمپنی اس کیس کو پوری طرح سے خارج کرنے کے لیے مختلف حربے اپناتی رہی ہے، اس لیے اس کیس میں 15 برس کا وقت لگ گیا۔