اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ یہ “ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ” ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا 2021 میں ٹرمپ کے جانشین اور حریف جو بائیڈن کی زیر قیادت انتظامیہ کے دوران مکمل ہوا تھا۔
وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد سے ٹرمپ کا اس بات پر اصرار رہا ہے کہ اگر وہ صدر ہوتے تو طالبان اور امریکی انخلاء سے مختلف انداز میں نمٹتے۔ تاہم ٹرمپ کے بہت سے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ ان کے دور میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان جو معاہدہ ہوا، اسی نے اصل میں طالبان کو دوبارہ اقتدار میں واپس لانے کی راہ ہموار کی۔ یہ معاہدہ سن 2020 میں ٹرمپ کی پہلی مدت کے اختتام کے قریب ہوا تھا۔
البتہ ٹرمپ اور ان کے ناقدین جس بات پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ دوحہ معاہدہ کبھی بھی مکمل طور پر نافذ ہی نہیں ہوا۔ طالبان نے قطر میں کیے گئے اپنے بیشتر ایسے وعدوں کو پورا نہیں کیا، جن میں ایک جامع حکومت کی تشکیل اور دیگر افغان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کی بات کہی گئی تھی۔
ٹرمپ کی افغانستان کو بمباری سے جہنم بنانے کی دھمکی
ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک خیال یہ ہے کہ امریکہ کو طالبان کے لیے “85 بلین ڈالر مالیت کا فوجی ساز و سامان چھوڑنے کے بجائے افغانستان میں بگرام کی ایئربیس اپنے پاس رکھنی چاہیے تھی۔”
حالانکہ ان کا یہ مالیاتی تخمینہ ایک غلط دعوی ہے، جو افغانستان پر امریکہ کی طرف سے حملے کے بعد سے افغان سکیورٹی فورسز پر خرچ کیے گئے کل فنڈز پر مبنی ہے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کی سن 2022 کی تحقیقات میں ترک شدہ فوجی آلات کی مالیت تقریباً سات بلین ڈالر ہی بتائی گئی ہے۔
اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے فوراً بعد ٹرمپ نے کہا تھا کہ 85 بلین ڈالر میں سے “ہر ایک پیسہ” امریکہ کو واپس کیا جانا چاہیے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے، تو “ہمیں یا تو غیر واضح فوجی طاقت کے ساتھ وہاں جانا چاہیے۔۔۔۔ اور اسے حاصل کرنا چاہیے، یا کم از کم اس پر اتنی بمباری کی جانی چاہیے کہ اسے جہنم بنا دیا جائے۔”
طالبان کو ‘ٹھوس پیش رفت‘ کی امید
گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح کے بعد سے تناؤ میں کمی ہوتے نہیں دیکھی جا رہی ہے۔ زلمے خلیل زاد جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے لیے دوحہ میں امریکا-طالبان معاہدے کی ثالثی کی تھی، انہوں نے حال ہی میں دوحہ معاہدے کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔
خلیل زاد نے کہا، “ٹرمپ کی امریکی صدارت میں واپسی کے ساتھ، افغانستان میں دوحہ معاہدے کے تمام عناصر پر مکمل عمل درآمد کی توقع ہے۔” خلیل زاد اس سے قبل افغانستان اور عراق میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
طالبان نے بھی ٹرمپ کی سیاسی واپسی پر محتاط امید کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ “دوطرفہ تعلقات میں ٹھوس پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے ایک عملی نقطہ نظر اپنائیں گے، جس سے دونوں ممالک باہمی مصروفیت کی بنیاد پر تعلقات کا ایک نیا باب کھول سکیں گے۔”
کیا ٹرمپ کے دور میں طالبان سے متعلق موقف تبدیل ہو گا؟
اطلاعات ہیں کہ ٹرمپ مارکو روبیو کو امریکی وزیر خارجہ اور مائیکل والٹز کو قومی سلامتی کا مشیر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں سیاستدان گزشتہ تین برسوں سے طالبان پر تنقید کرنے کے ساتھ ہی اسلامی بنیاد پرست گروپ پر مزید دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے خود بھی طالبان پر تنقید کی اور عندیہ دیا ہے کہ وہ طاقت سے ان سے نمٹیں گے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ان کی مجموعی خارجہ پالیسی پر منحصر ہو گا۔
سابق افغان سفارت کار عمر صمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ٹرمپ کی انتظامیہ دوحہ ڈیل پر مذاکرات دوبارہ شروع کر سکتی ہے، یا ان کی ٹیم مکمل طور پر نئے معاہدے پر کام شروع کر سکتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ بھی افغانستان کی زمینی حقائق کی صورتحال پر مبنی دو آپشنز کا مرکب اختیار کر سکتی ہے۔
صمد نے مزید کہا، “اس وقت تک ہم یہ نہیں جانتے کہ منتخب صدر افغانستان کے ساتھ کیسے نمٹیں گے۔”
افغانستان ٹرمپ کی ترجیح نہیں
دوسرے ماہرین اور سن 2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضے سے پہلے ان کے ساتھ مذاکرات میں شامل لوگوں کا کہنا ہے کہ واشنگٹن افغانستان کو زیادہ دیر تک نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
طالبان کے ساتھ سابق افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن محمد ناطقی کا خیال ہے کہ افغانستان کی صورتحال علاقائی سلامتی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ لہذا، نئی امریکی انتظامیہ کو عمل کرنا پڑے گا۔
ناطقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال اور غربت بین الاقوامی برادری اور امریکہ کو افغانستان میں نئی ذمہ داریاں دیتی ہے۔” تاہم بعض ماہرین نے اس بات کے لیے بھی خبردار کیا ہے کہ افغانستان ٹرمپ کی ترجیح نہیں ہے۔
یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جاری جنگیں ٹرمپ اور ان کی نئی انتظامیہ میں زیادہ ضروری کاموں کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی یوکرین کے تنازع کو حل کر لیں گے۔ اگرچہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا یوکرین کی جنگ جنوری میں صدارتی افتتاح کے بعد ختم ہو گی یا نہیں۔
جہانگیر خٹک، ڈائریکٹر کمیونیکیشن کا کہنا ہے کہ کابل کے بارے میں واشنگٹن کے نقطہ نظر میں کوئی تبدیلی تب ہی آئے گی، جب موجودہ بحرانوں سے نمٹ لیا جائے گا۔
خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ٹرمپ یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جاری جنگوں پر توجہ مرکوز کریں گے اور ان دونوں کے حل ہونے سے پہلے کچھ نیا شروع نہیں کریں گے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، “یہ ضروری ہے کہ ٹرمپ افغانستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر نہ دیکھیں جو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل ہو جائے۔” خٹک کے مطابق کہ طالبان اب تک عالمی برادری کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔