یوکرین کی روس پر امریکی میزائل داغنے کی اجازت ’جلتی پر تیل‘ ڈالنے کے مترادف ہے‘

ماسکو (ڈیلی اردو/بی بی سی) روسی انتظامیہ کی جانب سے پیر کی صبح جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ میزائل روس پر داغے جاتے ہیں تو ماسکو اس حملے کو یوکرین کی جانب سے حملہ نہیں بلکہ اسے امریکی حملہ تصور کرے گا۔

کریملن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’روس اور پوتن نے اپنے موقف کو بہت واضح کر دیا ہے اور امریکہ کا یہ فیصلہ اس تنازعے میں واشنگٹن کی شمولیت کی ایک نئی سطح کی نشاندہی کرتا ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ’واضح‘ ہے کہ سبکدوش ہونے والی بائیڈن انتظامیہ ’جلتی پر تیل کا کام‘ کر رہی ہے اور اس تنازعے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘

روس کی جانب سے یہ بیان امریکی صدر جو بائیڈن کے یوکرین کو روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی ساختہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال کی اجازت دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔

بی بی سی کے امریکہ میں پارٹنر سی بی ایس نیوز کو اعلیٰ امریکی اہلکاروں کی جانب سے اس حوالے سے تصدیق کی گئی ہے کہ صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو روس کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائلوں کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے کریملن کے اس بیان پر ردعمل کا اظہار کیا ہے جس میں امریکہ پر یوکرین روس جنگ میں جلتی پر تیل چھڑکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ شمالی کوریا کی افواج کی اس جنگ میں شمولیت کی روسی حکمتِ عملی پر نظر رکھے ہوئے ہے اور امریکہ کی جانب سے روس پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ہم اس کا جواب دیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں یہ آگ روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے لگی تھی اور بنیادی مسئلہ اس کا تسلسل، شمالی کوریا کی افواج کی میدانِ جنگ میں موجودگی اور ملک بھر میں فضائی حملوں میں آنے والی ’شدت‘ ہے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر کا کہنا تھا کہ ’اس لیے میں روس سے یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ یہاں آگ پر کون ایندھن ڈال رہا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ یوکرین کے لوگ ہیں۔‘

واضح رہے کہ یوکرین کئی ماہ سے روسی حدود میں حملے کے لیے امریکہ کی جانب سے فراہم کیے جانے والے میزائلوں کے استعمال کی اجازت طلب کر رہا تھا۔

زمینی حقائق اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ عین مُمکن ہے کہ روس اب کسی بھی دن روسی کرسک کے علاقے سے یوکرین کی افواج کو بے دخل کرنے کے لیے ایک بڑا حملہ کر سکتا ہے۔

یوکرین امریکی فراہم کردہ اے ٹی اے سی ایم ایس کو حملے کے خلاف دفاع کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جس میں فوجی اڈوں، بنیادی ڈھانچے اور گولہ بارود ذخیرہ کرنے والے مراکز سمیت روسی اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

یہ ہتھیار یوکرین کو ایک ایسے وقت میں کچھ فائدہ دے سکتے ہیں جب روسی افواج ملک کے مشرقی حصے میں قدم جما رہی ہیں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی امریکہ کی جانب سے دور تک مار کرنے والے میزائلوں کے استعمال پر پابندی ہٹانے کے بارے میں کئی ماہ سے کوششیں کر رہے تھے تاکہ یوکرین کو روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کا موقع مل سکے۔

خیال رہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے ماضی میں مغربی ممالک کو اس حوالے سے پابندی ہٹانے کے بارے میں خبردار کیا جاتا رہا ہے۔

انھوں نے رواں برس ستمبر میں کہا تھا کہ روس اسے نیٹو کی اس جنگ میں براہِ راست مداخلت کے طور پر دیکھے گا۔ پوتن نے کہا تھا کہ ’اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نیٹو ممالک، امریکہ اور یورپی ممالک روس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘ یہ لانگ رینج میزائل اے ٹی اے سی ایم ایس ہیں جو دراصل امریکہ کی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کی جانب سے بنائے جاتے ہیں۔

ان میزائلوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ 300 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں اور انھیں ان کی رفتار کی وجہ سے تباہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یہ ہتھیار یوکرین کو سپورٹ پیکج کے طور پر دیے جاتے رہے ہیں اور یہ اس پہلے یوکرین نے کریمیا میں استعمال کیے ہیں۔

امریکہ نے یوکرین کو یہ اجازت کیوں دی؟

مقامی اطلاعات کے مطابق یوکرین مقبوضہ یوکرین اور کرسک کے علاقے میں ایک دہائی سے زائد عرصے سے یہ میزائل اور امریکی اسلحے کا استعمال کر رہا ہے۔

تاہم امریکہ نے کبھی کیئو کو روس کے اندر ان میزائلوں کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہے۔ یوکرین نے یہ مؤقف اختیار کر رکھا تھا کہ ’ان میزائلوں کی اجازت نہ دینا تو ایسا ہی ہے کہ جیسے لڑائی میں کسی کا ایک ہاتھ اس کی پشت پر باندھ کر اسے کہا جائے کہ اب لڑو۔‘

اطلاعات کے مطابق امریکہ کی پالیسی میں نئی تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب یوکرین کے زیر قبضہ کرسک کے علاقوں میں روس کی مدد کے لیے شمالی کوریا کے فوجی بھی خطے میں آئے۔ یوکرین کرسک کے علاقے پر اگست سے قابض ہے۔

اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد بھی یوکرین کی جنگ میں مدد سے متعلق خدشات نے جنم لیا۔ صدر بائیڈن اس حوالے سے سنجیدہ ہیں کہ جتنا بھی ممکن ہو سکے وہ اپنی بقیہ مدت میں یوکرین کی مدد کر سکیں۔

اس کا ایک مقصد یوکرین کو عسکری طور پر مضبوط بنا کر کسی بھی ممکنہ امن مذاکرات میں اس کی پوزیشن بہتر بنانا ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ابھی تک اس امریکی فیصلے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم انھوں نے اتوار کو یہ کہا تھا کہ حملے الفاظ سے نہیں کیے جا سکتے ہیں۔۔۔ میزائل خود اپنا پتہ دیں گے۔

اے ٹی اے ایم سی میزائل کیا ہیں؟

آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (اے ٹی اے سی ایم ایس) بنیادی طور پر زمین سے زمین پر مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ہیں، جو 300 کلومیٹر کی دوری تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان میزائلوں کی یہی رینج انھیں یوکرین کے لیے اہم بنا دیتی ہے۔

اے ٹی اے سی ایم ایس یعنی آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم کو یا تو ایم 270 ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹم یعنی ایک جگہ پر نصب سسٹم (ایم ایل آر ایس) یا پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ پر آسانی سے منتقل ہو جانے والے ایم 142 ہائی موبلٹی آرٹلری راکٹ سسٹم (ایچ آئی ایم اے آر ایس) سے فائر کیا جاتا ہے۔

یہ میزائل ٹھوس راکٹ پروپیلنٹ سے ایندھن بھرتے ہیں اور خاصے تیز رفتار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں روکنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔

نیویگیشن کو لانچ سے پہلے پروگرام کیا جاتا ہے اور انرشیل اور سیٹلائٹ گائیڈنس کا استعمال کرتے ہوئے انھیں ہدف کی جانب داغا جاتا ہے، اور یہ اپنے ہدف کو تقریبا 10 میٹر تک درست انداز میں نشانہ بنانے کی صلاحیات رکھتا ہے۔

میزائلوں کو دو مختلف اقسام کے وار ہیڈ میں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے ایک کی مدد سے بڑی تعداد میں میزائل داغے جاتے ہیں اور اس کی مدد سے دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے۔

دوسری قسم یونٹری وار ہیڈ ہے، جو 225 کلو گرام کا ایک بڑا دھماکہ خیز ورژن ہے جو کسی بڑے مقام یا تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

یہ میزائل پہلی بار 1991 میں خلیج جنگ میں استعمال کیے گئے تھے۔

امریکہ ابھی اس میزائل کو مزید بہتر کرنے پر کام کرتے ہوئے 500 کلومیٹر تک اس کی رینج بڑھانا چاہتا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین کو یہ میزائل ملیں گے یا نہیں۔

ان میزائلوں کا جنگ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

امریکی اجازت ملنے کے بعد اب یوکرین ان میزائلوں کو روس کے خلاف استعمال کر سکے گا۔ شاید پہلے مرحلے میں وہ کرسک میں ان میزائلوں کا استعمال کرے، جہاں یوکرینی افواج ایک ہزار مربع کلومیٹر خطے پر مورچہ زن ہے۔

یوکرین اور امریکہ کو روس اور شمالی کوریا کی طرف سے کرسک کے علاقے میں حملوں کا خدشہ ہے۔ یوکرین ایسی صورت میں ان میزائلوں کا استعمال کر سکتا ہے اور وہ اس دوران روس کے فوجی اڈوں، انفراسٹرکچر اور اسلحے کے ڈپو کو ہدف بنا سکتا ہے۔

ان میزائلوں کے مقابلے میں روس نے بھی دفاعی انتظامات کر رکھے ہیں اور کسی بھی ایسے ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اس نے پہلے ہی فوجی تنصیبات جیسے لڑاکا جہاز بھی ملک کے اندر منتقل کر دیے ہیں۔

تاہم مزید امداد بھیجنے کے لیے روس کو مشکلات کا سامنا کر پڑ سکتا ہے کیونکہ ایسی امداد بھیجنے میں وقت لگتا ہے۔

ایک مغربی ملک کے سفارتکار نے بی بی سی کو بتایا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ بہت فیصلہ کن ہو گا۔ ان کے مطابق یہ یوکرین کو دی جانے والی ایک علامتی مدد کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سب روس کے جنگی اخراجات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں