خیبرپختونخوا: ‘وفاق اور صوبے کے درمیان عدم تعاون سے دہشت گرد فائدہ اُٹھا رہے ہیں’

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں حالیہ چند روز کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔

بدھ کو افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے ‘آئی ایس پی آر’ نے تصدیق کی ہے کہ منگل کو بنوں میں مالی خیل چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں 12 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس دوران چھ دہشت گرد مارنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔

اس حملے کی ذمے داری شدت پسند تنظیم حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کی ہے۔

ایک اور واقعے میں بنوں کے نواحی علاقے میں روچہ چیک پوسٹ پر سات پولیس اہلکاروں کے اغوا کا واقعہ بھی رونما ہوا۔ تاہم ان اہلکاروں کو عمائدین اور پولیس پر مشتمل مقامی جرگے کی کوششوں سے بازیاب کروایا گیا۔

مبصرین ان بڑھتے واقعات کو پاکستان کی سیکیورٹی کے لیے انتہائی تشویش کا باعث قرار دے رہے ہیں۔

منگل کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی دہشت گردی بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ کچھ عرصہ قبل تک دنیا حیران تھی کہ پاکستان نے دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے مگر آج دنیا میں ہمارا مذاق بن رہا ہے۔

کیا یہ انٹیلی جینس کی ناکامی ہے؟

سابق سیکریٹری داخلہ خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو انٹیلی جینس کی ناکامی قرار دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یوں تو روزانہ کی بنیاد پر درجنوں آپریشن ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ایسی تمام کارروائیاں درست سمت میں نہیں ہو رہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی اتنی بڑی تعداد کا ان علاقوں میں موجود ہونا اور آسانی کے ساتھ کارروائی کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔

سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان حقیقت سے نظریں چرانے کے بجائے دیگر پہلوؤں پر بھی غور کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیاں کے بعد افغانستان پر الزام عائد کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھی منظم کارروائی کرنا ہو گی۔

وفاق اور صوبے کے درمیان تعاون کا فقدان

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کو ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو قرار دیتے ہیں۔

اُن کے بقول صوبے اور وفاق کے درمیان تعاون کے فقدان کا بھی دہشت گرد پورا فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور اس ساری صورتِ حال کا ملبہ فوج پر گر رہا ہے۔

جنرل آصف یاسین 2010 سے 2011 کے درمیان الیون کور کی سربراہی کرتے رہے ہیں جو قبائلی اضلاع اور خیبرپختونخوا میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف تھی۔

جنرل آصف یاسین کے بقول اُن کے دور میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ شدت پسند تنظیمیں بیروزگار نوجوانوں کو 15 سے 20 ہزار ماہانہ پر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ معاشی بدحالی بھی شدت پسندی میں اضافے کا باعث ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ صورتِ حال یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرانے کے لیے قبائلی عمائدین کی مدد لینا پڑ رہی ہے اور کمشنر، ڈپٹی کمشنرز اور مقامی انتظامیہ بے بس نظر آ رہی ہے۔ اگر قبائلی جرگے کے بعد ہی مغویوں کو بازیاب کرانا ہے تو پھر سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اُٹھیں گے۔

اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارے ‘سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز’ کے مطابق رواں برس عسکری تنظیموں کے حملوں میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے لگ بھگ 1100 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ جس وقت پاکستانی فوج 2014 میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف فوجی آپریشن کر رہی تھی اس وقت انھیں صرف ایک ہی گروہ کا سامنا تھا لیکن اب حافظ گل بہادر گروپ سمیت دیگر گروہ بھی متحرک ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پہلے دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکی ڈرونز کا خطرہ رہتا تھا اور اگر دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں کو امریکی ڈرونز نے نشانہ بنایا۔ لیکن اب پاکستان کی فوج کو خود ہی ان دہشت گردوں سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جینس نظام کو مزید فعال کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کو بھی بڑھانا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں