دوحہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی) حماس کے مذاکرات کار اب دوحہ میں موجود نہیں ہیں تاہم ان کا دفتر ابھی مستقل طور پر بند نہیں ہوا ہے جبکہ یہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں کہ فلسطینی گروپ کو قطر کا دارالحکومت چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا ہے کہ مذاکراتی ٹیم میں شامل حماس کے رہنما اب دوحہ میں نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دفتر کو مستقل طور پر بند کرنے کا فیصلہ “ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بارے میں آپ براہ راست ہم سے سنیں گے۔”
قطر نے امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی کے لیے کئی مہینوں تک مذاکرات کی قیادت کی تھی جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ اس خلیجی ریاست نے اس مہینے کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ وہ ثالثی کے لیے اپنی کوششوں میں وقفہ لا رہا ہے۔
یہ اعلان قطر کی جانب سے حماس کو انتباہ کرنے کی ان رپورٹس کے بعد سامنے آیا ہے کہ وہ 2012 سے امریکہ کی رضامندی کے ساتھ حماس کے جس سیاسی بیورو کی میزبانی کر رہا ہے، اب اسے مزید قبول نہیں کیا جائے گا۔
انصاری نے منگل کے روز کہا کہ ثالثی کا عمل فی الحال اس وقت تک معطل ہے جب تک کہ ہم دونوں فریقوں کے سیاسی موقف پر مبنی اپنے فیصلے کو پلٹنے کا فیصلہ نہیں کرتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوحہ میں حماس کا دفتر ثالثی کے عمل کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ثالثی کا عمل نہیں ہو رہا، تو پھر یہ دفتر بھی کام نہیں کر رہا۔
تاہم ترجمان نے ان قیاس آرائیوں کی تصدیق کرنے سے انکار کیا کہ آیا قطر نے حماس کو اپنا دفتر چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔
حماس کے ایک سینئر رکن نے منگل کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ گروپ کے مذاکرات اعلیٰ خلیل الحیہ کی قیادت میں ایک وفد قطر سے باہر ایک مشن پر ہے اور وہ امارات میں واپس نہیں آیا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ان رپورٹوں کی تردید کی جن میں فلسطینی گروپ کو قطر چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قطر سمیت کسی بھی ایسے ملک نے، جہاں حماس کے رہنما موجود ہیں، انہیں وہا سے چلے جانے کے لیے نہیں کہا۔
حماس کے ایک اور قریبی ذریعے نے بتایا کہ خلیل الحیہ سمیت گروپ کے ارکان، جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق تجاویز پر تبادلہ خیالات کے لیے، ترکیہ کی دعوت پر وہاں گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی کی کوششوں کو اسرائیل نے ناکام بنا دیا ہے۔
گزشتہ سال قطر کی ثالثی میں ایک ہفتے کے لیے جنگ بندی کی گئی تھی، جس میں حماس نے اپنے سینکڑوں قیدیوں کے ساتھ تبادلے کے بدلے میں درجنوں اسرائیلی یرغمال رہا کیے جنہیں اس گروپ کے جنگجوؤں کو 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران پکڑ کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔
اس کے بعد قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے مذاکرات کاروں کے درمیان کئی ادوار ہو چکے ہیں، لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
نومبر کے شروع میں حماس نے مصر اور قطر کی جانب سے محدود مدت کی جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا، کیونکہ اس میں دیرپا جنگ بندی شامل نہیں تھی۔
اسرائیل متعدد بار یہ عزم ظاہر کر چکا ہے کہ جب تک وہ اپنے جنگی مقاصد حاصل نہیں کر لیتا، لڑائی بند نہیں کرے گا۔ اسرائیل کے جنگی مقاصد میں حماس کا خاتمہ اور یرغمالوں کی اپنے گھروں کو واپسی شامل ہے۔
اپریل میں، جب مذاکرات میں تعطل چل رہا رہا تھا، قطر نے کہا تھا کہ وہ اپنے ثالثی کے کردار کا ازسر نو جائزہ لے رہا ہے، جس کے بعد حماس کے کئی رہنما فوری طور پر ترکیہ چلے گئے۔
اس کے دو ہفتے بعد ہی یہ مذاکرات کار امریکہ اور اسرائیل کی درخواست واپس آگئے جب مذاکرات پر کام آگے نہ بڑھ سکا۔
امریکہ نے پیر کے روز ترکی کی نشاندہی کرتے ہوئے حماس کے ارکان کی میزبانی کرنے والے ممالک کے خلاف انتباہ جاری کیا۔