واشنگٹن + کییف (ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے) یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں امریکہ سمیت متعدد ممالک نے ممکنہ روسی فضائی حملے کے پیشِ نظر اپنے سفارتخانوں کو بند کر دیا ہے۔
امریکہ، سپین، اٹلی اور یونان ان نمایاں ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے یوکرینی دارالحکومت میں اپنے سفارتخانے عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یوکرین میں امریکی سفارتخانے کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ ’20 نومبر کو کسی ممکنہ بڑے فضائی حملے کی معلومات‘ کے پیشِ نظر کیئو میں اپنا سفارتخانہ بند کر رہے ہیں۔
امریکی سفارتخانے نے اپنے سفارتی اہلکاروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ محفوظ مقام پر پناہ لے لیں۔
بیان کے مطابق سفارت خانے کے عملے کو شیلٹرز میں پناہ لینے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ کیف میں موجود امریکی شہریوں کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ کسی بھی فضائی حملے کے الرٹ کی صورت میں شیلٹرز میں جانے کے لیے تیار رہیں۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب منگل کو یوکرین نے امریکی ساختہ لانگ رینج میزائلوں سے روس کے اندر حملہ کیا تھا۔
امریکی صدر نے حال ہی میں یوکرین کو امریکی ساختہ (اے ٹی سی ایم ایس) لانگ رینج میزائل استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔
منگل کو روسی حکام نے تصدیق کی تھی کہ یوکرین کی جانب سے داغے گئے چھ میزائلوں میں سے پانچ کو راستے میں ہی مار گرایا گیا تھا۔
روسی حکام کا کہنا تھا کہ یہ میزائل برائنسک کے علاقے میں فوجی تنصیب کی جانب داغے گئے جن میں سے ایک میزائل کا ملبہ فوجی تنصیب کے پاس گرا ہے جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یوکرینی حکام نے بتایا تھا کہ ان میزائلوں کے ذریعے روس میں 110 کلو میٹر اندر اسلحہ ڈپو کو نشانہ بنایا گیا۔
روس امریکہ اور مغربی ممالک کو خبردار کرتا رہا ہے کہ اگر اُن کے میزائل روس کے خلاف استعمال ہوئے تو یہ ان ممالک کی جانب سے روس پر براہِ راست حملہ تصور ہو گا۔
روسی صدر پوٹن نے منگل کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے اُصول تبدیل کرنے کی بھی منظوری دی تھی۔
اس کے بعد روس جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق فیصلہ لے سکے گا۔ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے مختلف مواقع پر روسی صدر جوہری حملے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔
امریکہ نے روسی اقدام کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اپنی جوہری پوزیشن میں کوئی ردوبدل نہیں کرے گا۔
منگل کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کو روس کے جوہری حملے کے لیے اپنی حد کم کرنے پر کوئی تعجب نہیں ہوا اور امریکہ روسی اقدام کے جواب میں اپنی جوہری پوزیشن کو ایڈجسٹ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
دوسری جانب سپین نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ’ممکنہ بڑے فضائی حملے‘ کے خدشات کے پیشِ نظر یوکرینی دارالحکومت میں اپنا سفارتخانہ بند کر رہے ہیں۔
تاہم یوکرین میں برطانوی سفارتخانہ تاحال کھلا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کیئو میں صورتحال کی نگرانی کر رہے ہیں۔
خیال رہے گذشتہ روز روس نے کہا تھا کہ یوکرین نے روسی علاقوں پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔
ماسکو میں وزارت دفاع نے کہا تھا کہ یوکرین نے منگل کی صبح روس کے علاقے برائنسک پر حملے میں آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (اٹاکس) کا استعمال کیا ہے۔
روسی وزارتِ دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پانچ میزائلوں کو فضا میں ہی مار گرایا گیا تاہم ایک میزائل کے ناکارہ ہو جانے کے بعد اس کے ٹکڑوں کی وجہ سے علاقے میں موجود ایک فوجی اڈے میں آگ لگنے کی اطلاعات ہیں۔‘
پیر کے روز روسی انتظامیہ کہ جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’اگر امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ میزائل روس پر داغے جاتے ہیں تو ماسکو اس حملے کو یوکرین کی جانب سے حملہ نہیں بلکہ اسے امریکی حملہ تصور کرے گا۔‘
دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعد اور شرائط طے کیے ہیں جن کے تحت اب روس اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرے گا۔
روس کی جانب سے جوہری ڈاکٹرائن میں کی گئی تازہ ترین تبدیلیوں کے مطابق اگر ایک غیرجوہری ریاست کو روس پر حملہ کرنے کے لیے ایک جوہری طاقت کی حمایت حاصل ہے، تو اسے روس پر مشترکہ حملہ تصور کیا جائے گا۔
اب ان تبدیلیوں کے تحت روس پر روایتی میزائلوں، ڈرونز یا ہوائی جہازوں سے بڑا حملہ روس کی جانب سے جوہری ردعمل کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بیلاروس پر حملہ ہو یا روس کی خودمختاری کو کوئی سنگین خطرہ لاحق ہو تو وہ جوہری ردعمل دے سکتا ہے۔
اس تبدیلیوں کے بعد روس کے خلاف کسی ایسے ملک کی جارحیت جو کسی اتحاد کا رکن ہو، ماسکو پورے گروپ کی طرف سے جارحیت تصور کرے گا۔
روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق جوہری نظریے میں تبدیلیوں کے مطابق ممکنہ جوہری ردعمل کے دائرے میں آنے والے ممالک، اتحادوں، اور فوجی خطرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر پوتن پہلے بھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں جس پر یوکرین نے تنقید کرتے ہوئے اسے ’جوہری دھمکی‘ قرار دیا تھا اور اسے اپنے اتحادیوں کو مزید مدد فراہم کرنے سے روکنے کی روسی کوشش کہا تھا۔
تاہم روسی وزیر خارجہ سرگئی لارؤف نے کہا ہے کہ ’ہم اس بات کے سخت حامی ہیں کہ جوہری جنگ سے ہر حال میں بچا جائے۔‘