یوکرین کا پہلی مرتبہ روس میں برطانوی ساختہ سٹارم شیڈو میزائل سے حملہ

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) یوکرین نے پہلی مرتبہ روس کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے برطانیہ کے تیار کردہ سٹارم شیڈو میزائل کا استعمال کیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق برطانوی سیکریٹری دفاع جون ہیلی نے اس بات کی تصدیق کرنے گریز کیا ہے کہ یوکرین نے روس پر برطانوی ساختہ میزائل سے حملہ کیا ہے۔

سیکریٹری دفاع جون ہیلی نے برطانیہ کے دارالعوام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میدانِ جنگ میں یوکرین کے اقدامات بولتے ہیں۔‘

انھوں نے اراکین دارالعوام کو بتایا کہ گذشتہ روز ان کی اپنے یوکرینی ہم منصب سے فون پر گفتگو ہوئی تھی اور انھوں نے روس کے جارحانہ اقدامات پر ’مضبوط ردِ عمل دینے‘ پر تبادلہ خیال کیا۔

تاہم سٹارم شیڈو میزائل کے استعمال کی تصدیق یا تردید نہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت میں مزید آپریشنل تفصیلات میں نہیں جا سکتا۔‘

برطانیہ اور فرانس نے پہلے ہی ان میزائلوں کو یوکرین بھیج دیا تھا اور اس کے پاس ان میزائل کی کثیر تعداد موجود ہے، تاہم ملک پر پابندی تھی کہ وہ روس کے خلاف ان کا استعمال نہیں کر سکتا چاہے روس کے طیارے یوکرین کی اپنی سرحدی حدود میں ہی کیوں نہ گردش کر رہے ہوں۔

یوکرین کے دارالحکومت کیئو کی جانب سے کئی ہفتوں سے درخواست کی جا رہی تھی کہ اسے روس کے خلاف یہ میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ مگر مغربی ممالک یوکرین کو یہ اجازت دینے میں کترا رہے تھے۔

مگر امریکہ کی جانب سے ٹیکٹکل میزائلوں کو روس کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت کے بعد یوکرین نے سٹارپ شیڈو میزائل سے بھی روس میں اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔

سٹارم شیڈ میزائل کیا ہے اور ان میزائلوں کے استعمال سے جنگ پر کیا اثر پڑے گا؟

سٹارم شیڈو میزائل کیا ہے؟

سٹارم شیڈو ایک اینگلو فرانسیسی کروز میزائل ہے جو زیادہ سے زیادہ تقریباً 250 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔ فرانسیسی اسے ’سکیلپ‘ کہتے ہیں۔

اسے ہوائی جہاز سے لانچ کیا جاتا ہے۔ یہ تقریباً آواز کی رفتار پر اپنے ہدف تک پرواز کرتا ہے اور پھر نیچے گرنے سے پہلے اپنے ’وار ہیڈ‘ (میزائل کا وہ حصہ جس میں دھماکہ خیز مواد موجود ہوتا ہے) کو دھماکے سے اڑا دیتا ہے۔

سٹارم شیڈو کو مضبوط بنکرز اور گولہ بارود کے گوداموں میں گھسنے کے لیے ایک مثالی ہتھیار سمجھا جاتا ہے، جیسے وہ میزائل جو روس نے یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کیے۔

تاہم ایک سٹارم شیڈو میزائل کی لاگت تقریباً دس لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ اس لیے ان کو استعمال کرنے سے پہلے سستے ڈرونز استعمال کیے جاتے ہیں، جن سے دشمن کا فضائی دفاع کمزور بنایا جا سکے اور ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کا زیادہ سے زیادہ گولہ بارود استعمال ہو جائے۔ بالکل اسی طرح روس بھی یوکرین کے ساتھ کرتا ہے۔

ماضی میں سٹارم شیڈو کو موثر انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس میزائل کے ذریعے کرائیمیا میں روس کے بحیرہ اسود میں واقع نیول ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد کرائیمیا روس کی بحریہ کے لیے خطرناک قرار دے دیا گیا تھا۔

برطانوی فوج کے سابق افسر اور فوجی تجزیہ کار جسٹن کرمپ کا کہنا ہے کہ سٹارم شیڈو یوکرین کے لیے انتہائی موثر ہتھیار ثابت ہوا ہے، جس سے انھوں نے مقبوضہ علاقے میں انتہائی محفوظ اہداف پر ٹھیک نشانہ لگایا۔

ان کے خیال میں ’یہ تعجب کی بات نہیں کہ کیئو نے روس کے اندر اس میزائل کے استعمال کے لیے لابنگ کی ہے۔ خصوصاً ان فضائی اڈوں کو نشانہ بنانے کے لیے جہاں سے یوکرین کے اگلے مورچوں کو گلائیڈ بم حملوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

یوکرین اب کیوں سٹارم شیڈو استعمال کرنا چاہتا ہے؟

یوکرین کے اگلے مورچوں اور شہروں پر روس کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر حملے ہوتے ہیں۔

روسی طیاروں نے اپنی سرحدی حدود کے اندر سے کئی مرتبہ میزائلوں اور گلائیڈ بموں کے ذریعے یوکرین میں موجود کئی فوجی مورچوں، فلیٹس اور ہسپتالوں پر حملے کیے ہیں۔

کیئو کی شکایت ہے کہ اسے ان روسی مورچوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ہونا اس طرح ہے جیسے اسے ایک بازو کے ساتھ جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہو۔

فوجی تجزیہ کار جسٹن کرمپ نے بتایا کہ ’میں نے ستمبر میں پراگ میں گلوبسیک سکیورٹی فورم میں شرکت کی تھی جہاں اس بات پر بحث ہوئی کہ روس کے فوجی مورچے یوکرین کے شہریوں سے زیادہ محفوظ ہیں کیونکہ یوکرین پر یہ (سٹارم شیڈو) میزائل استعمال کرنے کی پابندی ہے۔‘

تاہم یوکرین کے پاس اپنا خود کا بھی ایک طویل فاصلے پر حملہ کرنے والا ڈرون پروگرام موجود ہے۔

ان ڈرونز کی پہنچ روس میں سینکڑوں کلومیٹرز تک ہے اور ایسا کئی بار ہوا کہ ان ڈرون حملوں نے روسی فوج کو چونکا دیا۔ تاہم یہ ڈرونز کم گولہ بارود سے لیس ہوتے ہیں۔

کیئو کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے فضائی حملوں کو مات دینے کے لیے اسے سٹارم شیڈو سمیت زیادہ فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں امریکی اٹیکمز بھی شامل ہیں جو 300 کلومیٹر تک حملہ کر سکتے ہیں۔

مغربی ممالک میں ہچکچاہٹ کیوں؟

اس کا آسان جواب یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے بات حد سے زیادہ بگڑ جائے۔

اگرچہ صدر ولادمیر پوتن نے خطرناک رد عمل کی دھمکیاں دی ہیں اور گذشتہ روز پوتن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعد اور شرائط طے کیے تھے جن کے تحت اب روس اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرے گا۔

روس کی جانب سے جوہری ڈاکٹرائن میں کی گئی تازہ ترین تبدیلیوں کے مطابق اگر ایک غیرجوہری ریاست کو روس پر حملہ کرنے کے لیے ایک جوہری طاقت کی حمایت حاصل ہے، تو اسے روس پر مشترکہ حملہ تصور کیا جائے گا۔

اب ان تبدیلیوں کے تحت روس پر روایتی میزائلوں، ڈرونز یا ہوائی جہازوں سے بڑا حملہ روس کی جانب سے جوہری ردعمل کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بیلاروس پر حملہ ہو یا روس کی خودمختاری کو کوئی سنگین خطرہ لاحق ہو تو وہ جوہری ردعمل دے سکتا ہے۔

روس کی جانب سے یہ اہم تبدیلیاں واشنگٹن کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں یوکرین کو روس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائل فائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

وائٹ ہاؤس کو لگتا ہے کہ اگر یوکرین کو مغربی میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی تو کریملن میں بیٹھے سخت گیر موقف رکھنے والے لوگ یوکرین کی مدد کرنے والے ممالک جیسے پولینڈ کے فضائی اڈوں پر دھاوا بول دیں گے۔

اگر ایسا ہوا تو نیٹو کا آرٹیکل 5 نافذ ہو جائے گا جس کا مطلب ہو گا کہ اب روس کی جنگ مغربی اتحاد سے ہے۔

24 فروری 2022 کو یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے امریکہ کا مقصد یہ رہا ہے کہ روس کے ساتھ براہ راست تنازعے میں گھسے بغیر کیئو کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرے، کیونکہ اگر امریکہ براہ راست اس جنگ میں شامل ہوا تو روس کے ساتھ جوہری جنگ کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

سٹارم شیڈو کے استعمال سے کیا فرق پڑے گا؟
یوکرین کو اب سٹارم شیڈو استعمال کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔

کیئو ایک طویل مدت سے اس میزائل کو استعمال کرنے کے لیے لابنگ کر رہا ہے۔ اجازت ملنے میں دیر کی وجہ سے روس کو اتنا وقت مل چکا ہے کہ وہ اپنا دفاع مضبوط کر لے اور اس وقت کے لیے تیار ہو جائے جب یوکرین ان میزائل کا استعمال کرے گا۔

روس نے اپنے بم، میزائل اور انفراسٹرکچر کو یوکرین کی سرحد سے اتنا دور منتقل کر دیا ہے کہ وہاں سٹارم شیڈو کی پہنچ ممکن نہیں۔

تاہم فوجی تجزیاکار جسٹن کرمپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ روس نے خود کو سٹارم شیڈو کے حملے سے محفوظ ضرور کر لیا ہے لیکن اس کے باقی علاقے دیگر میزائلوں کے حملوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔

’روس کے لیے اپنی فوج کی رہنمائی کرنا اور اسے فضائی مدد فراہم کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر روس یوکرین کی جانب سے میزائل حملوں سے بچنے کے لیے اس کی سرحد سے دور بھی ہو جائے تب بھی وقت کے ساتھ ساتھ اسے کافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ فوجی مورچوں کو بچانے کے لیے اس کے اخراجات میں اضافہ ہو جائے گا۔‘

برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر برائے فوجی سائنس میتھیو سویل کا ماننا ہے کہ یوکرین کو مغربی ممالک سے فراہم کیے گئے میزائل استعمال کرنے کے دو فائدے ہوں گے۔

پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ یوکرین ایٹکمز میزائل استعمال کر سکے گا۔

دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ روس کے لیے ایک نیا مخمصہ بن جائے کہ اب وہ اپنے فضائی دفاع کو کہاں تعینات کرے۔ ایسا کرنے سے یوکرین کے لیے موثر طریقے سے ڈرون استعمال کرنا آسان ہو جائے گا۔

تاہم میتھیو سویل کہتے ہیں کہ سٹارم شیڈو کے استعمال سے پھر بھی یوکرین کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں