کرم میں شیعہ مسافر گاڑیوں پر حملے میں 60 افراد ہلاک، 80 سے زائد زخمی، مزید ہلاکتوں کا خدشہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/بی بی سی/رائٹرز/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں شیعہ مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعات میں ابتک خواتین اور بچوں سمیت 60 افراد ہلاک جبکہ 80 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

جمعرات کو یہ واقعہ لوئر کرم کے علاقے مندروی میں اس وقت پیش آیا جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پارا چنار جانے والی مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اس سڑک پر حملہ ہوا جسے حال ہی میں کھولا گیا تھا۔

ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ”لوئر کرم کے دو علاقوں مندوری اور ڈاڈ کمر میں مسافر بسوں کے کانوائے پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 38 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہو گئے ہیں۔”

ان کے بقول مندوری میں کانوائے پشاور سے پارا چنار جا رہا تھا اور ڈاڈ کمر میں کانوائے پارا چنار سے پشاور آ رہا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اہلکار، خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

جاوید اللہ محسود کا کہنا تھا کہ دونوں قافلوں میں تقریباً 40 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں، کانوائے پر فائرنگ کے بعد دہشت گرد فرار ہو گئے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔

کُرم پولیس نے برطانوی خبر رساں ایجنسی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مسافر گاڑیوں پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں 42 افراد ہلاک ہوئے ہیں تاہم ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

انتظامیہ کے مطابق زخمیوں کو ٹل اور پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

صوبے خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری نے بتایا کہ جمعرات کو ہونے والے حملے میں کم از کم 38 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہوئے ہیں۔ ندیم اسلم چوہدری کے مطابق قبائلی ضلع کرم میں ہونے والے اس حملے میں ایک عورت اور ایک بچہ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ”یہ ایک بڑا سانحہ ہے اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔‘‘

افغانستان کی سرحد سے متصل اس قبائلی علاقے میں زمینی تنازع پر مسلح شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان کئی دہائیوں سے تناؤ موجود ہے۔

مقامی انتظامیہ کے اہلکار واجد حسین نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو میں میں کہا کہ مرنے والوں میں کم از کم تین خواتین شامل ہیں۔

مقامی پولیس کے سربراہ سلیم شاہ نے ڈی پی اے کو بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کچھ لاشیں پرائیویٹ کلینکس میں منتقل کی گئی ہوں اور ابھی تک ان کو سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہ کیا گیا ہو۔

مندروی کے بنیادی مرکزِ صحت میں تعینات ڈاکٹر محمد نواز نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ وہاں اب تک 33 لاشیں لائی گئی ہیں جن میں چھ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ لاشیں اور آٹھ زخموں کو علیزی کے ہسپتال میں لایا گیا ہے۔

عینی شاہدین اور کرم پولیس کے مطابق ’قافلے پر تین مختلف علاقوں میں مورچے لگا کر فائرنگ کی گئی اور کم از کم چودہ کلومیٹر کے علاقے میں قافلے پر فائرنگ ہوتی رہی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں فائرنگ ہوئی ان میں مندوری، بگن اور اوچت شامل ہیں۔

عینی شاہد نصیر خان نے بتایا کہ قافلے میں شامل بچ جانے والی گاڑیاں جب ایک علاقے سے نکل کر دوسرے علاقے میں جاتیں تو پھردوسرے علاقے میں ان پر فائرنگ کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ ان تین علاقوں تک جاری رہا تھا۔

یاد رہے اسے قبل 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ہوئے مسافر ویگن قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد سے پاڑہ چنار، پشاور روڈ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند تھی۔

سنی اکثریتی پاکستان کی 240 ملین آبادی کا تقریباً 15 فیصد شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ دونوں مذہبی برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کی بھی ایک تاریخ ہے۔

اگرچہ یہ دونوں مذہبی برادریاں ملک میں بڑے پیمانے پر پرامن طور پر اکٹھا رہتی ہیں تاہم بعض علاقوں، خاص طور پر کرم کے کچھ حصوں میں، جہاں شیعہ غلبہ رکھتے ہیں، کئی دہائیوں سے کشیدگی پائی جاتی ہے۔

پاکستان کے صدرآصف علی زرداری نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔ انہوں نے حکام کو اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر مسافر قافلے کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ قافلے میں 200 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں جنھیں نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق اب تک 33 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 19 شدید زخمی ہیں۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور واقعے کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ، ڈی پی او، آر پی او سمیت تمام متعلقہ افسران جائے وقوعہ پر موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

ادھر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ٹیلی فونک رابطے میں سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی اور صوبے میں دہشتگردی کے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت سے امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور خیبرپختونخوا ملک کا اہم صوبہ ہے جہاں ضرورت ہو گی مدد کریں گے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی مذمت

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا کا مطالبہ کیا ہے۔

تنظیم کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بے امنی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے وفاقی اور صوبائی حکومتی کی کوتاہی ظاہر ہوتی ہے۔ لہذٰا دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ عام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔

قبائلی ضلع کرم میں طویل عرصہ سے فرقہ وارانہ لڑائی کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

اگست میں فرقہ وارانہ لڑائی کے باعث اپر اور لوئر کرم کا درمیانی راستہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا، پولیس کے مطابق مقامی جرگہ کی کوششوں سے گزشتہ ہفتے راستہ کھولا گیا تھا جس کے بعد مسافروں کو کانوائے کی شکل میں لے جایا جاتا تھا۔

ضلع کرم اہم کیوں ہے؟

پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔

پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔

کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔

پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔

’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔

رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں