کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کے اعلان کو سیکیورٹی ماہرین چینی حکومت کے دباؤ کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ منگل کو نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا تھا جس کی صدارت وزیرِ اعظم شہباز شریف کر رہے تھے۔
اجلاس کے بعد حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں متعدد کالعدم علیحدگی پسند تنظیموں کا ذکر کیا گیا تھا، جنہیں فوجی آپریشن کا ہدف بنایا جائے گا۔ ان تنظیموں میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس سے منسلک مجید بریگیڈ کے علاوہ بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ و سندھی علیحدگی پسند گروہوں کے اتحاد بلوچ راجی اجوہی سنگر (براس) شامل ہے۔
بلوچستان میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یکے بعد دیگرے تشدد کے متعدد واقعات ہوئے ہیں جن میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت چینی باشندوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بی ایل اے نے رواں ماہ 9 نومبر کو کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اسے اپنی ‘بڑی انٹیلی جینس کامیابی’ قرار دیا تھا۔ اس حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 25 سے زائد افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل چھ اکتوبر کو کراچی میں بی ایل اے کے حملے میں دو چینی باشندوں سمیت تین افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے تھے۔
بی ایل اے نے دونوں حملوں میں خودکش حملہ آوروں کو استعمال کیا تھا، جس سے اس تنظیم کی حکمتِ عملی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم تحقیقی ادارے ‘دی خراسان ڈائری’ سے وابستہ محقق امتیاز بلوچ کے مطابق بلوچستان میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کو کوئی نام نہیں دیا جاتا جیسا خیبرپختونخوا یا قبائلی علاقوں میں آپریشن ‘ضرب عضب’ یا ‘راہِ راست’ کے نام سے ماضی میں کیے جانے والے آپریشنز تھے۔ ان کے بقول بلوچستان میں چھوٹے اور بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ حملوں کی شدت اور نوعیت کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں جان بوجھ کر فوج کو صوبے میں ایک بڑے آپریشن کے لیے اکسانا چاہتی ہیں تاکہ جنگ کی سی صورتِ حال پیدا کی جائے اور وہ اپنے لائحہ عمل تیار کریں۔
حالیہ ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں بی ایل اے اور اس کے ذیلی ونگ مجید بریگیڈ، ڈاکٹر اللہ نزر کی بی ایل ایف براس کو نشانہ بنانے کا اعلان یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت انہیں بلوچستان کی شورش میں اہم عوامل تصور کرتی ہے۔
حکومت نے بلوچستان کی شورش میں مبینہ ملوث ہونے کی بنا پر بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت ایک درجن سے زائد تنظیموں کو پہلے ہی کالعدم قرار دے رکھا ہے۔
امتیاز بلوچ کے مطابق بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ٹی ٹی پی اور دیگر مذہبی شدت پسند جماعتیں بھی فعال ہیں جو سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہیں۔ تاہم ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں ٹی ٹی پی کا ذکر نہ ہونا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ نئی کارروائیاں بنیادی طور پر بلوچ تنظیموں کے خلاف مرکوز ہوں گی۔
چین کا دباؤ
پاکستان میں سیکیورٹی معاملات اور پاکستان چین تعلقات کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان دراصل چین کی حکومت کو پیغام پہنچانا تھا کہ پاکستان میں چینی مفادات پر حملہ کرنے والے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے خلاف کارروائی شروع ہو رہی ہے۔
چین پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مختلف منصوبوں کے ذریعے سڑکیں، ڈیم، پائپ لائن اور بندرگاہ پر کام جاری ہے۔
سی پیک چین کے عالمی سطح پر جاری ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو زمینی راستے سے گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرنا ہے جس سے چین کو بحیرۂ عرب تک رسائی حاصل ہونے میں آسانی ہو گی۔
پاکستان میں چینی باشندوں کو نشانہ بنانے والی بی ایل اے اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں چین کو ایک نو آبادیاتی طاقت کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک چین حکومتِ پاکستان کے ساتھ مل کر ان کی معاشی محرومیوں کو مزید بڑھا رہا ہے اور یہ گروہ اسی بنیاد پر سی پیک کی مخالفت کرتے ہیں۔
بی ایل اے نے گزشتہ ماہ کراچی ایئر پورٹ کے باہر چینی قافلے پر حملے کے بعد جاری کردہ ایک بیان میں بھی سی پیک منصوبے کو “بلوچوں کو مزید غلامی میں دھکیلنے اور ان کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی گھناؤنی سازش” قرار دیا تھا۔
اپنے حالیہ بیان میں بی ایل اے نے الزام عائد کیا ہے کہ “چین اور پاکستان نے بلوچستان کے معدنی ذخائر اور گوادر بندرگاہ کو ہتھیانے کے لیے اپنی استحصالی منصوبہ بندی کو تیز کر دیا ہے۔”
سی پیک منصوبوں پر کام کرنے کی غرض سے چینی انجینئرز اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔ حال ہی میں رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ چین حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والے ہزاروں چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے چینی سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی اجازت دے۔
پاکستان میں چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے اکثر رینجرز، فوج، لیویز اور پولیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے خصوصی فورس بنانے کے بھی اعلانات سامنے آتے رہے ہیں۔
مگر ماہرین اور حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں چینی مفادات اور شہریوں پر شدت پسند گروہوں کے حملوں میں اضافے کے باعث چین کی حکومت پریشان ہے اور پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھا رہی ہے۔
اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کے مطابق ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بلوچستان کی شورش کو سب سے اہم مسئلہ قرار دیا گیا تھا۔ ان کے بقول بلوچستان میں نئی کارروائیوں کا فیصلہ چین کے دباؤ کا نتیجہ لگتا ہے۔
حال ہی میں چین کا دورہ کرنے والے اسلام آباد کے ایک صحافی نے بھی بتایا ہے کہ چینی حکام نے اپنی ملاقاتوں میں پاکستان اور جنوبی افریقہ میں موجود چینی مفادات اور شہریوں کی حفاظت کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافی نے وائس آف امریکہ کو بتایا، “اس وقت پاکستانی حکام کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ وہ چینی حکام کو یہ یقین دہانی کرائیں کہ وہ اپنے سیکیورٹی پلان کو مضبوط بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔”
پاکستان میں شدت پسندی اور پاک چین تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد کالعدم تنظیمیں دو دہائیوں سے پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ تاہم 2013 سے ان حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کا تعلق ‘سی پیک’ سے ہے۔
عامر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت نے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائی کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اتنے بڑے صوبے میں کارروائیوں کے لیے مطلوبہ وسائل اور افرادی قوت کیسے فراہم کی جائے گی۔
ان کے مطابق بڑے پیمانے پر آپریشن کے بجائے انٹیلی جینس کی بنیاد پر سرچ آپریشنز اور چھوٹے پیمانے کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو ممکنہ طور پر نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
امتیاز بلوچ کے خیال میں بلوچستان میں نئے فوجی آپریشن سے نہ صرف سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو گا بلکہ قوم پرست جماعتیں بھی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے شدید ردِعمل ظاہر کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تنظیمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی طرف بھی بڑھ سکتی ہیں۔
بلوچستان میں فوجی کارروائیوں سے متعلق فیصلے پر ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران کسی سیاسی منصوبے جیسے مذاکرات کا ذکر شامل نہیں تھا۔ البتہ فوجی کارروائی کے لیے انٹیلی جینس معلومات کو منظم کرنے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کے درمیان رابطہ بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔
البتہ ماضی میں نیشنل ایکشن پلان میں حکومت نے ناراض بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مفاہمتی عمل شروع کرنے اور شورش کی بنیادی وجوہات، جیسے سیاسی محرومی، معاشی تنہائی، اور تاریخی شکایات کو حل کرنے پر زور دیا تھا۔