اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے ایک اور واقعے میں خواتین سمیت 38 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ واقعہ 21 نومبر کو اس وقت پیش آیا جب پشاور سے پاڑہ چنار جانے والے مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر مندوری کے مقام پر اچانک نامعلوم سمت سے فائرنگ کر دی گئی۔ یاد رہے کہ یہ قافلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں سفر کر رہا تھا۔
اس سے قبل 12 اکتوبر کو اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں ایک ایسے ہی قافلے پر حملے کے نتیجے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد سے پاڑہ چنار سے پشاور جانے والی سڑک آمدورفت کے لیے بند تھی جسے حال ہی میں دوبارہ کھولا گیا تھا۔ تاہم یہاں سفر کے لیے پولیس سمیت ایف سی کی سکیورٹی میں مسافر گاڑیاں قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔
کرم میں حالیہ فائرنگ کا واقعہ کیوں پیش آیا اور فائرنگ کرنے والے کون تھے؟ اس بارے میں فی الحال حکام کی جانب سے موقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
بی بی سی نے رواں سال ہی جولائی کے مہینے میں فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاکت کے بعد ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں ان تنازعات کے پیچھے چھپے عوامل کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں زمین کی ملکیت کا ایک اہم کردار ہے۔
’میری زندگی کا سب سے مشکل سفر وہ تھا جب مجھے لاہور کے ایک کالج میں داخلے کے لیے پاکستان سے نکل کر افغانستان کے راستے دوبارہ پاکستان داخل ہونا پڑا۔ میں پاڑہ چنار سے دیگر مسافروں کے ساتھ ایک کورولا میں بیٹھا، گردیز اور جلال آباد کے راستے طورخم سے پاکستان میں داخل ہوا، پھر جمرود، پشاور سے ہوتا ہوا لاہور پہنچا۔‘
احمد علی شاہ کرم کے رہائشی ہیں، اور کہتے ہیں کہ 2010 میں پاکستان سے زمینی رابطے منقطع ہونے پر افغانستان کے راستے اپنے ہی ملک میں واپس داخل ہونے کے سفر میں ایک طرف طالبان کی گولی کا نشانہ بننے کا خوف رہتا تو دوسری جانب نیٹو فوج کا ڈر ذہن پر سوار ہوتا۔
احمد بتاتے ہیں کہ ’اس سفر کے دوران جب ہم ایک امریکی فوجی قافلے کے قریب سے گزرے تو ہم پر مشین گنیں تان لی گئیں۔ مجھ سمیت گاڑی میں بیٹھے ہر شخص نے کلمہ پڑھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہی ہمارا آخری وقت ہے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ امریکیوں نے گولی نہیں چلائی اور طالبان نے بھی اُس دن حملہ نہیں کیا۔‘
احمد کرم میں دہائیوں سے جاری فسادات اور ان کے اثرات کے گواہ ہی نہیں بلکہ ان کے متاثرہ افراد میں بھی شامل ہیں۔
ان کے والد 2008 میں جبکہ ایک بھائی 1987 میں فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ یہاں فسادات کی وجہ فرقہ ورانہ تقسیم کے ساتھ ساتھ یہاں کی سونا اگلتی وہ زمین ہے جس پر قبائل اور مسلک میں بٹی کرم کی آبادی اب تک سینکڑوں جانیں گنوا چکی ہے لیکن حکومت آج بھی اس مرکزی مسئلے کا حل تلاش کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
کرم میں زمینوں کا یہ تنازعہ کیا اور کیوں ہے اور اس کی وجہ سے کیسے یہ خطہ فرقہ ورانہ فسادات کی آگ میں جلتا ہے، ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے اس علاقے کا جغرافیہ اور اس کی اہمیت سمجھنا ضروری ہے۔
ضلع کرم اہم کیوں ہے؟
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے لیکن یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ ہیں۔
اسی طرح اس علاقے میں جیش محمد اور سپاہ صحابہ جیسی کالعدم شدت پسند تنظیموں کی موجودگی بھی ہے۔ ضلع کرم کا صدر مقام پاڑہ چنار ہے جہاں آبادی کی اکثریت اہلِ تشیع مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔
پاڑہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سےگزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریبا سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
زمین کی ملکیت کا تنازع کیوں اور کہاں کہاں ہے؟
ضلع کرم کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔
وہی زمینیں جن کی ملکیت پر آج اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ہر چند ماہ بعد درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کرم کے زیادہ تر علاقوں میں لینڈ ریکارڈ آج تک موجود ہی نہیں ہے۔ لینڈ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع میں مختلف مقامات پر مختلف قبائل اور افراد زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔
خیال رہے کہ پاڑہ چنار کی زمین کا شمار قبائلی علاقوں کی زرخیز ترین زمینوں میں ہوتا ہے۔ سرسبز و شاداب اور پانی کے وافر ذخائر ہونے کے باعث یہاں کی فصلیں اور باغات مشہور ہیں جن میں چاول، سبزیاں اور میوہ جات کو خصوصی شہرت حاصل ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے چاول اتنے مشہور ہیں کہ پرانے وقتوں میں لوگ انھیں کھانے کے لیے خصوصی طورپر اپنے رشتہ داروں کے ہاں کرم جایا کرتے تھے۔
آج یہاں زمین کا تنازعہ کم از کم پانچ مختلف مقامات پر موجود 10 یا اس سے زائد دیہاتوں اور قبائل کے درمیان ہے جن میں زمین کے ساتھ ساتھ مسلک کی تقسیم بھی موجود ہے یعنی متنازع زمینوں پر اہل تشعیع اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا دعوی ہے۔
پیواڑ اور گیدو، تری منگل:
پیواڑ اور گیدو، تری منگل اپر کرم میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع دیہات ہیں۔ پیواڑ میں اہل تشیع کی اکثریت جبکہ گیدو اور تری منگل میں اہلسنت سے تعلق رکھنے والی آبادی ہے۔ یہاں متنازع زمین موجود ہے جس پر ان دیہاتوں کے باسی دعوی کرتے ہیں اور بعض اوقات معاملہ فسادات تک پہنچ جاتا ہے۔
بوشہرہ، ملی خیل تنازع:
بوشہرہ اور ملی خیل بھی اپر کرم یعنی پاڑہ چنار میں واقع دو دیہات ہیں۔ یہاں حالیہ لڑائی دو افراد کے درمیان چند کنال زمین کے تنازعے پر شروع ہوئی جو بعد میں پورے ضلع میں پھیل گئی اور درجنوں افراد کی ہلاکت کا باعث بنی۔
ان دونوں علاقوں میں مذہبی لحاظ سے آبادی مختلف فرقوں میں تقسیم ہے اور یہاں جس زمین پر جھگڑا ہے، اس کے دعویدار قبائل نہیں، بلکہ چند افراد ہیں۔ تاہم کسی بھی لڑائی کی صورت میں دونوں فریقین کا ساتھ ان کے قبائل دیتے ہیں، چاہے وہ ضلع بھر میں کہیں بھی آباد ہوں۔
مقبل، کنج علیزئی تنازع:
مقبل اور کنج علیزئی بھی اپر کرم میں افغانستان کی سرحد پر واقع دو دیہات ہیں، جہاں زمین کی ملکیت کا تنازع کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ مقبل میں اہلسنت جبکہ کنج علی زئی میں اہل تشیع آباد ہیں اور اس زمین پر ہونے والا تنازع بھی پرتشدد واقعات پر ختم ہوتا ہے۔
بالیش خیل، پاڑہ چمکنی تنازع:
بالیش خیل اور پاڑہ چمکنی دیہاتوں کے درمیان بھی ہزاروں ایکڑ زمین کا تنازع ہے، جس پر ہونے والی لڑائی فرقہ ورانہ فسادات میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ بالیش خیل لوئر کرم اور پاڑہ چمکنی سینٹرل کرم میں واقع ہے۔
ان چاروں مقامات پر موجود زمین کے تنازعات کے باعث گذشتہ چند سال میں سب سے زیادہ فسادات برپا ہوئے ہیں اور درجنوں افراد کی جانیں گئیں۔
قوم بنگش، حمزہ خیل تنازع:
اسی طرح بنگش قوم جو کرم ضلع کے مختلف دیہاتوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور ترہ حمزہ خیل قوم جو لوئر دیر میں شورکو کے علاقے میں آباد ہے، کے درمیان زمینی تنازعے فسادات کا سبب بنتا ہے۔
تنازع کا مستقل حل کیا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کرم کی امن کمیٹی کے رکن محمود علی خان کہتے ہیں کہ شہریوں اور مقامی عمائدین کی ’مسلسل درخواستوں کے بعد لینڈ کمیشن تو بنایا گیا مگر ابھی تک اس کمیشن نے کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔‘
’ہمیں حکومت اور اتھارٹیز سنجیدہ نہیں نظر آتے جبکہ لڑائی میں شامل بعض گروپس نے بھی کام سے روکنے کی کوشش کی ہے۔‘
تاہم حکام کہتے ہیں کہ لینڈ کمیشن اپنا کام کر رہا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود کہتے ہیں کہ زمین کے تنازعات کے حل کے لیے ’حکومت میں جو سٹیک ہولڈرز ہیں انھوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور مسئلے کے حل تک پہنچ گئے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی قبائلی عمائدین سے بات کرنا باقی ہے۔ ہم نہ صرف لینڈ ریکارڈ پر کام کر رہے ہیں بلکہ مری ایگریمنٹ پر اتفاق طے پانے کے بعد اس پر بھی کام کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم مقامی روایات کا بھی خیال رکھ رہے ہیں۔‘
دوسری جانب علاقے میں مقامی افراد کے پاس اسلحہ کی موجودگی سے متعلق سوال پر انھوں نے تشویش کا اظہار کیا اور تسلیم کیا کہ دونوں مسلک سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے پاس اسلحہ موجود ہے جو ’واپس لینے کی ضرورت بھی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ حکام نے ’ڈی ویپنائیزیشن کی ہے، لیکن ابھی اس پر بہت کام ہونا باقی ہے۔‘
کیا صرف زمین کا تنازع ہی فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ ہے؟
’میرے والد کو 2008میں اغوا کیا گیا اور چھے دن بعد ان کی لاش ملی، ان کا سر کاٹ دیا گیا تھا اور اس کی وجہ ان کا مسلک تھا۔‘
احمد علی شاہ کے والد ہی نہیں، ان کے خاندان کے دیگر کئی افراد بھی ان فسادات کا نشانہ بنے۔ وہ کہتے ہیں کہ 1987 میں میرے بھائی اس وقت مارٹر گولے کا نشانہ بنے جب یہاں فرقہ ورانہ فسادات چل رہے تھے۔ میرے بھائی گھر کے دروازے پر بیٹھے تھے جب مارٹر گولہ گرا۔ ان سے پہلے میرے ماموں اور چچا بھی فرقہ ورانہ فسادات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔‘
اگرچہ حالیہ کچھ برسوں میں ایسے فسادات کی وجہ بظاہر زمین کے کسی نہ کسی ٹکڑے پر ہونے والی لڑائی ہی تھی لیکن ماضی میں ضلع کرم میں زمین کی ملکیت کے تنازع کے علاوہ بھی فرقہ ورانہ فسادات کی ایک تاریخ موجود ہے۔
پہلی فرقہ وارانہ لڑائی
کرم میں پہلی فرقہ وارانہ لڑائی 1938 میں اس وقت ہوئی جب غیرمنقسم ہندوستان کے شہر لکھنو میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز ہوا۔ یہاں دوسرا بڑا فرقہ ورانہ واقعہ 1966 میں صدہ میں ایک ماتمی جلوس کے دوران ہوا۔
1971 میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے مینار کی تعمیر تیسرے بڑے فرقہ ورانہ فسادات کی وجہ بنی جبکہ 1977 میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے موذن پر قاتلانہ حملے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ پانچواں بڑا واقعہ 1982 میں صدہ میں ہوا۔
14 سال بعد 1996 میں توہین مذہب کے الزامات کے بعد لڑائی شروع ہوئی اور پھر پاڑہ چنار ہائی سکول میں سنی طالب علموں کے قتل کے بعد بڑے پیمانے پر فسادات کا آغاز ہوا۔
2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان سمیت دیگر دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے یہاں فرقہ واریت کی ایک نئی لہر کی بنیاد رکھی جو اب تک ہونے والے تمام فسادات سے زیادہ طویل اور خونریز ثابت ہوئی۔
2007 کے فرقہ ورانہ فسادات
2007 میں ضلع کرم میں ملکی تاریخ کے شدید فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں پہلی مرتبہ فریقین نے ایک دوسرے کے دیہات پر حملے کر کے سینکڑوں مکانات نذرِ آتش کیے جبکہ شیعہ، سنی آبادی کو اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔
اپریل 2007 میں ربیع الاول کے جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ فسادات کا باعث بنا اور پھر نومبر 2007 میں ایک مبینہ قتل کے الزام کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ یہ فسادات اس قدر شدید تھے کہ ایک امتحانی ہال میں ڈیوٹی پر موجود اساتذہ کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلایا گیا، جبکہ مسافر گاڑیاں روک کر سواریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔
اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف چار سالوں میں یہاں 1600 سے زائد افراد ان فسادات میں ہلاک ہوئے، قبائلی عمائدین کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔ ان فسادات میں پانچ ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
ان فسادات کے باعث علاقے کی مرکزی ٹل پاڑہ چنار شاہراہ تقریباً چارسال تک عام ٹریفک کے لیے بند رہی اور سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں جانے والے قافلے بھی شدت پسند حملوں سے محفوظ نہ رہے۔
پھر پشاور سے خصوصی پروازوں کا آغاز کیا گیا جبکہ بیشتر آبادی افغانستان کے پکتیا، گردیز، کابل، طورخم روڈ کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتی لیکن افغانستان میں بھی ان پر حملوں کے باعث یہ ایک خطرناک راستہ بن گیا۔
اس دوران طالبان کی جانب سے ایک مسجد پر قبضے کی کوشش کی گئی۔ 2008 میں حکومت اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے طالبان کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پاڑہ چنار کے عمائدین نے قبائلی فوج قائم کی جس نے طالبان کو شکست دی اور بگزئی گاؤں کا کنٹرول واپس سنبھال لیا جو خطے میں طالبان کی مرکزی بیس تھا۔
امن کمیٹی کے رکن محمود علی خان کہتے ہیں کہ ’شدت پسند تنظیموں جن میں افغان اور پاکستانی طالبان اور القاعدہ شامل ہیں، نے خاص طور پر سرحد پر واقع دیہاتوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ یہ سٹریٹجک اعتبار سے بلندی پر واقع علاقہ ہے اور افغانستان میں حملے آسان تھے۔‘
’تاہم پاڑہ چنار کی عوام نے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا اور ایک طویل جنگ لڑی۔‘ وسطی کرم کا علاقہ جس میں صدہ شامل ہے، ایک مختصر مدت کے لیے شدت پسندوں کے کنٹرول میں ضرور رہا ہے۔
2011 میں فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا اور فرقہ ورانہ فسادات پر قابو پانے کی کوشش کی جس کے بعد ٹل پاڑہ چنار سڑک کھولی گئی مگر یہاں طویل عرصے تک سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رہی اور درجنوں چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔
ضلع کرم کا شمار ملک کے ان قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہاں خواتین کی شرح تعلیم بھی سابق فاٹا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن ماہرین سمجھتے ہیں کہ جب تک اس علاقے میں موجود ان دونوں ’فالٹ لائنز‘ یعنی فرقہ واریت اور زمینی تنازع کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا، یہاں امن کا قیام ناممکن ہے۔
محمود علی خان کے مطابق ’ان فسادات کا سبب بننے والا چند کنال رقبہ سینکڑوں جانیں لے گیا ہے، یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔‘