کرم: بگن بازار میں مقامی قبیلے اور طوری لشکر کے مابین لڑائی، مزید 32 ہلاکتیں، درجنوں زخمی

پشاور + اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جمعرات کو گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 44 ہلاکتوں کے بعد جمعے کی شب اس کے ردِ عمل میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں حکام کے مطابق کم از کم 32 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

جمعے کی شب سے کرم کے مختلف علاقوں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور بعض ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی دکانوں اور مکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے۔

،فاخبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ایک مقامی سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ شیعہ اور سنی کمیونٹیز کے درمیان کرم کے مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ تازہ ترین جھڑپوں کے دوران 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 18 کا تعلق شیعہ اور 14 کا سنی کمیونٹی سے ہے۔

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے ضلع کرم جانے والے حکومتی وفد کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد اور جھوٹی اطلاعات قرار دیا ہے۔

مشیرِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ ہم بالکل خیر خیریت سے سفر کرکے پاڑہ چنار پہنچے ہیں اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایت پر حکومتی وفد قبائلی عمائدین اور مشران سے جرگہ کر رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بیرسٹر سیف کے مطابق اہل تشیع کے رہنماؤں سے مفصل ملاقاتیں ہوئیں ہیں اور مسائل کے حل کے لیے مثبت گفتگو ہوئی ہے۔ اب اگلے مرحلے میں اہل سنت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی جائیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ہماری اولین ترجیح دونوں فریقین کے درمیان سیز فائر کروا کر پائیدار امن قائم کرنا ہے۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی واضح ہدایات ہیں کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔

بیرسٹر سیف کے مطابق ان کے ساتھ وزیرِ قانون آفتاب عالم، چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا، انسپکٹر جنرل آف پولیس اور سابق ایم این اے ساجد طوری کے علاوہ انتظامیہ کے تمام افسران بھی موجود ہیں۔ اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر یہ وفد حالات کا جائزہ لینے اور امن و امان کی بحالی کے لیے جرگے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کرم آیا ہے۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ کرم میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ قبائلی رہنماؤں سے مدد حاصل کی جا رہی ہیں۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاڑہ چنار کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر میر حسن جان کے مطابق ان کے ہسپتال میں گذشتہ رات سے آٹھ لاشیں اور پچاس سے زیادہ زخمی افراد لائے گئے ہیں۔

اسی طرح لوئر کرم کے علاقے بگن، مندوری اور علیزئی کے علاقوں میں جھڑپوں اور توڑ پھوڑ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لوئر کرم میں واقع صدہ ہسپتال سے ڈاکٹر رحیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ہسپتال میں تین لاشیں لائی گئیں جبکہ بگن کے ساتھ مندوری کے بنیادی صحت مرکز میں موجود ڈاکٹر محمد نواز نے بتایا کہ ان کے مرکز میں نو لاشیں اور 20 سے زیادہ زخمی لائے گئے ہیں۔

علیزئی کے بنیادی صحت مرکز میں رابطہ نہیں ہو سکا لیکن ڈاکٹر رحیم کے مطابق تازہ جھڑپوں کے دوران علیزئی میں 12 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

خیال رہے کہ جمعرات کو لوئر کرم کے علاقوں بگن اور اوچت میں 200 گاڑیوں کے قافلے پر مسلح افراد نے چار مقامات پر حملہ کیا تھا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 44 افراد مارے گئے تھے جبکہ 39 زخمی ہوئے تھے۔ ان ہلاک شدگان اور زخمیوں میں سے اکثریت کا تعلق پاڑہ چنار اور اہلِ تشیع برادری سے تھا۔

بگن بازار میں مقامی قبیلے اور طوری لشکر کے مابین شدید لڑائی

اس حملے کے بعد سے علاقے میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ گذشتہ روز بعد نماز جمعہ جب گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین اپنے آبائی علاقوں میں کر دی گئی تھی اس کے بعد پاڑہ چنار میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔ اس دوران باب کرم اور بعض علاقوں میں توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

اس کے بعد سنی اکثریتی علاقے بگن کے بازار میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دکانوں سمیت املاک کو آگ لگا دی گئی جس سے علاقے میں بھاری نقصان ہوا ہے۔علیزئی اور بگن میں شدید جھڑپ ہوئی جس میں ہلکے اور بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا ہے۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ تشدد کے واقعات، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے لوئر کرم کے کچھ علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔

اس بارے میں مقامی انتظامیہ اور پولیس نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ تاہم نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’کل رات شروع ہونے والے تشدد کے واقعات باقی علاقوں تک بھی پھیل رہے ہیں۔‘

کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہلاک شدگان کی تدفین کے بعد جمعے کی شام شیعہ اکثریتی علاقے علیزئی سے طوری قبائل کی جانب سے لشکر کشی کا آغاز ہوا۔

ڈپٹی کمشنر جاوید محسود نے بی بی سی کی فرحت جاوید کو بتایا کہ بگن میں لشکر کی جانب سے متعدد مکانات اور بگن بازار میں کئی دکانوں اور پیٹرول پمپ کو بھی آگ لگائی گئی ہے۔

کرم پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بگن بازار میں مقامی قبیلے اور طوری لشکر کے مابین شدید لڑائی ہوئی ہے جبکہ بگن کے علاوہ مقبل اور کنج علیزئی جبکہ صدہ میں خارکلے اور بالشخیل میں بھی اہلِ سنت اور اہلِ تشیع قبائل کے درمیان لڑائی کی اطلاعات ہیں۔

مقامی صحافیوں کے مطابق ضلع کرم کے لوئر پاڑہ چنار کے علاقے میں اس وقت کئی مقامات پر موبائل انٹرنیٹ میں خلل ہے جبکہ کئی مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

جمعرات کو قافلے پر حملہ: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

جمعرات کو لوئر کرم کے علاقے مندروی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی 200 گاڑیوں کے قافلے پر متعدد مقامات پر حملہ کیا گیا تھا۔

یہ قافلہ اس سڑک پر سفر کر رہا تھا جسے اکتوبر میں مسافر گاڑیوں پر حملے کے واقعے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد حال ہی میں آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا۔

اس حملے پر شیعہ تنظیم مجلس وحدتِ مسلمین نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا جبکہ جمعے کو کراچی میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے رہنماؤں نے ضلع کُرم سمیت خیبر پختونخوا بھر میں آپریشن کا مطالبہ کیا تھا۔

فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کے مسافروں میں شامل پیر حسین شاہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب قافلہ پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوا تو ’اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘

سعیدہ بانو پشاور میں ملازمت کرتی ہیں۔ وہ بھی اس قافلے میں شامل تھیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب پشاور سے پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت میں نے اپنی گاڑی سے اُتر کر سکیورٹی فورسز سے کہا کہ ’قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی اہلکار کم ہیں مگر مجھے کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں قافلے کے درمیان میں تھی۔ پہلے مجھے ایسے لگا کہ گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے سے فائرنگ کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ میرے سامنے بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے اپنے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کر دیا تھا۔ کئی منٹ تک ہر طرف سے فائرنگ ہوتی رہی تھی۔‘

سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگا کہ آج میں بچوں سمیت ماری جاؤں گی۔ مگر قافلے کے درمیان میں گاڑیوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ گاڑیاں جو شروع اور آخر میں تھیں وہ براہ راست ٹارگٹ تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب فائرنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی ہلاک ہو چکا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے زخمیوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔‘

کرم حملے پر تحقیقات جاری

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر مسافر قافلے کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ قافلے میں 200 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں۔

بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور واقعے کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ، ڈی پی او، آر پی او سمیت تمام متعلقہ افسران جائے وقوعہ پر موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

ادھر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ٹیلی فونک رابطے میں سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی اور صوبے میں دہشتگردی کے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت سے امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور خیبرپختونخوا ملک کا اہم صوبہ ہے جہاں ضرورت ہو گی مدد کریں گے۔

ضلع کرم اہم کیوں؟

پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔

پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔

کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔

پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔

’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔

رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں