پاراچنار: اولین ترجیح فریقین کے درمیان سیز فائر کروا کر امن قائم کرنا ہے، بیرسٹر سیف

پاراچنار + پشاور (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں جب کہ صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے پاڑا چنار آنے والے سرکاری ہیلی کاپٹر پر نامعلوم افراد نے فائرنگ بھی کی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ایک مقامی سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ شیعہ اور سنی کمیونٹیز کے درمیان کرم کے مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ تازہ ترین جھڑپوں کے دوران 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 18 کا تعلق شیعہ اور 14 کا سنی کمیونٹی سے ہے۔

دوسری جانب کرم کے ضلعی پولیس افسر جاوید اللہ محسود نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی ہے کہ شیعہ سنی جھگڑے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 20 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

پولیس افسر نے مزید بتایا کہ علاقے میں حالات بدستور کشیدہ ہیں جب کہ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

ضلع کرم میں جمعرات سے اب تک پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 70 سے زائد ہو چکی ہے۔

جمعرات کے روز کرم کے مختلف علاقوں میں پشاور سے پاڑا چنار جانے ولے مسافر کانوائے پر حملے کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

واقعے کے بعد علاقے میں صورتِ حال کشیدہ ہو گئی تھی جب کہ مشتعل افراد نے جمعے کو بگن بازار کی متعدد دکانوں کو آگ لگا دی تھی جب کہ قریبی گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔

مقامی ایس ایچ او سلیم شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سیکڑوں افراد جمعے کی شام چھ بجے بگن اور اس کے نواحی علاقوں پر حملہ آور ہوئے جس کے بعد لڑائی کا سلسلہ شروع ہوا جو ہفتے کی صبح تک جاری رہا۔

سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ

ضلع کرم میں امن و امان کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی ہدایت پر ایک وفد ہفتے کو پاڑا چنار پہنچا تو نامعلوم افراد نے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی کی۔ تاہم فائرنگ کے بعد ہیلی کاپٹر نے محفوظ لینڈنگ کی ہے اور واقعے میں کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔

صوبائی وزیرِ قانون آفتاب عالم ایڈووکیٹ کی سربراہی میں حکومتی وفد میں چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا ندیم اسلم چوہدری، کمشنر کوہاٹ ڈویژن، ڈی آئی جی کوہاٹ سمیت دیگر اعلیٰ افسران سوار تھے۔

سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کے واقعے پر تشویش ہے: گورنر خیبرپختونخوا

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ضلع کرم میں سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کے واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایک بیان میں فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ سرکاری ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ فائرنگ میں سرکاری وفد اور ہیلی کاپٹر کا محفوظ رہنا تسلی بخش ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ضلع کرم میں قیامِ امن کے لیے سنجیدہ کوششیں بروئے کار لانا ہوں گی۔

اولین ترجیح فریقین کے درمیان سیز فائر کروا کر امن قائم کرنا ہے، بیرسٹر سیف

مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے کہا ہے کہ ضلع کرم میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کی اولین ترجیح فریقین کے درمیان سیز فائر کروا کر پائیدار امن قائم کرنا ہے۔

ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر حکومتی وفد ضلعی عمائدین سے جرگہ کر رہا ہے۔ ہفتے کو اہلِ تشیع کے رہنماؤں سے مفصل ملاقاتیں ہوئیں اور مسائل کے حل کے لیے مثبت گفتگو ہوئی ہے۔

بیرسٹر سیف کے مطابق اگلے مرحلے میں اہلِ سنت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی جائیں گی۔ ان کے بقول وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی واضح ہدایات ہیں کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔

بیرسٹر سیف کی حکومتی وفد کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی تردید

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے ضلع کرم جانے والے حکومتی وفد کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد اور جھوٹی اطلاعات قرار دیا ہے۔

‘حالات بے قابو ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیں’

ضلع کرم کے علاقے بگن کے مقامی پولیس افسر سلیم شاہ کے مطابق شیعہ سنی جھگڑے میں ایک ہزار سے زائد گھروں جب کہ 300 سے زائد دکانوں کو جلایا گیا ہے۔ ان کے بقول علاقے میں اب بھی فائرنگ کے واقعات ہو رہے ہیں اور حالات بے قابو ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ضلع کرم میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا علاقہ چپری آتا ہے جس کے بعد بگن، صدہ، علیزئی اور آخر میں کرم کا صدر مقام پاڑا چنار آتا ہے۔ بگن اور پاڑا چنار کے درمیان ایک گھنٹے سے زیادہ کی مسافت ہے۔

مقامی صحافی محمد علی طوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تازہ ترین فسادات کے بعد بڑے پیمانے پر بگن سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے جب کہ پاڑا چنار میں اب بھی سوگ کا ماحول ہے۔ تعلیمی ادارے، بازار اور عدالتیں مکمل طور پر بند ہیں جب کہ اسپتالوں میں ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

بگن سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی شخص دل نواب نے بتایا کہ فرقہ ورانہ جھڑپوں کا سلسلہ جمعے کی شام اُس وقت شروع ہوا تھا جب 100 سے زائد افراد نے بگن گاؤں پر دھاوا بول دیا تھا۔

ان کے بقول مظاہرین نے پہلے چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں سے گاؤں پر حملہ کیا جس کے بعد قریبی بازار میں پیٹرول کے زریعے آگ لگانا شروع کی۔

دل نواب کے مطابق متاترہ بازار میں روزمرہ اشیا کے علاوہ پولٹری، گوشت، دودھ اور سبزی پھلوں کی دکانیں تھیں۔ شام کے باعث بیشتر دکانیں بند تھیں جس کی وجہ سے جانی نقصان کم تاہم بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دوطرفہ فائرنگ اور لڑائی کا سلسلہ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا اور فریقین کا بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا ہے۔

دل نواب کے بقول مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کنج، خار کلے، مقبل اور بالیش خیل سمیت پانچ مقامات پر لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامی طور پر علاقہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔

واضح رہے کہ ضلع کرم میں شیعہ سنی فسادات میں جمعرات سے اب تک 70 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں