پشاور + اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے) پاکستان میں فرقہ وارانہ حملوں اور جھڑپوں میں گزشتہ تین روز میں کم از کم بیاسی افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے اتوار 24 نومبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق افغانستان کے ساتھ پاکستان کی قومی سرحد کے قریب واقع اور ماضی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یا فاٹا کہلانے والے خطوں میں سے ایک کرم میں، جو اب ضلع کرم کہلاتا ہے، یہ درجنوں ہلاکتیں مقامی شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین اس کشیدگی کا نتیجہ ہیں، جو وہاں گزشتہ کئی عشروں سے پائی جاتی ہے۔
پاکستان مجموعی طور پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے، لیکن ملک کے کئی دیگر علاقوں کی طرح ضلع کرم میں بھی شیعہ مسلم آبادی کی اکثریت ہے۔
جمعرات سے لے کر گزشتہ رات تک جھڑپیں جاری
کرم کی مقامی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ رواں ماہ کی 21 تاریخ کو کرم میں شیعہ مسلمانوں کے دو قافلوں پر جو علیحدہ علیحدہ خونریز حملے کیے گئے تھے، ان کے بعد ہونے والے دیگر حملے اور مسلح جھڑپیں 22 اور 23 نومبر کو بھی جارہے رہے اور ان میں اب تک مجموعی طور پر ”کم از کم 82 افراد ہلاک اور 156 زخمی ہو چکے ہیں۔‘‘
خونریزی کے اس نئے سلسلے کی ابتدا جمعرات 21 نومبر کو جن دو بڑے حملوں سے ہوئی تھی، ان میں کم ازکم 43 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کے بعد سے دونوں مذہبی گروپوں کے متحارب ارکان کے مابین ہونے والے جھڑپوں میں ان ہلاکتوں کی تعداد اب تقریباﹰ دو گنا ہو چکی ہے۔
مقامی حکام کے مطابق مرنے والے کم از کم 82 افراد میں سے 16 مقامی سنی مسلم تھے اور 66 کا تعلق مقامی شیعہ آبادی سے تھا۔
پانچ شیعہ افراد اغوا
ڈیلی اردو کے مطابق پارا چنار سے تقریباً 70 کلومیٹر دور دشوار گزار علاقے گودر سے پانچ افراد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اغوا ہونے والوں میں تین عورتیں اور دو مرد شامل ہے۔ تمام افراد کا تعلق کرم کی شیعہ برادری سے ہے۔
سینکڑوں مقامی خاندان متاثرہ علاقے سے روانہ ہو گئے
اس بدامنی کی وجہ سے مقامی باشندوں کے تقریباﹰ 300 خاندان کل ہفتے کے روز اس خونریزی سے جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے ضلع کرم کے متاثرہ علاقے سے رخصت ہو گئے جبکہ فریقین کے مابین جھڑپیں کل ہفتے کو رات گئے تک جاری رہیں۔
حکام کے بقول آج اتوار کی صبح سے ضلع کرم سے اس بدامنی میں کسی نئی انسانی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
مقامی انتظامیہ کے حکام کے مطابق کرم کے پورے ضلع میں موبائل فون نیٹ ورک سروس ابھی تک بند ہے جبکہ اس ضلع کی مرکزی ہائی وے پر ٹریفک بھی معطل ہے۔
اسی دوران پشاور میں صوبائی حکومت کے ایک وفد نے کل ہفتے کی شام کرم میں مقامی شیعہ آبادی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور یہی وفد انتہائی کشیدہ صورت حال میں بہتری کے لیے آج اتوار کو بعد ازاں مقامی سنی مسلم آبادی کے نمائندوں سے بھی ملنے والا ہے۔
کرم میں ان ملاقاتوں کے بارے میں صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم آفریدی نے آج اتوار کے روز اے ایف پی کو بتایا، ”اس وقت ہماری سب سے بڑی ترجیح اطراف کے مابین فائر بندی کو یقینی بنانا ہے۔ اس لیے کہ ایک بار فائر بندی ہو گئی، تو پھر ہم دیگر معاملات کو حل کرنے کی کوششیں بھی کر سکیں گے۔‘‘