بنگلہ دیش: شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد ‘رواداری’ میلہ منسوخ

ڈھاکا (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) مذہبی رواداری کو فروغ دینے والے بنگلہ دیشی صوفیانہ فرقے نے اسلامی شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد اپنا مقبول میوزک فیسٹیول منسوخ کر دیا ہے۔ اسے اگست میں طالب علموں کی قیادت میں آنے والے سیاسی انقلاب کے بعد سے ہنگامہ خیز مذہبی تعلقات کا تازہ ترین شکار قرار دیا جارہا ہے۔

مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں مظاہروں کی لہر کے نتیجے میں ایک عرصے تک اقتدار پر رہنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ان مظاہروں میں اسلام پسند گروپوں کے کردار میں کافی اضافہ ہوا۔

حسینہ کی معزولی کے بعد فوری طور پر افراتفری کے دنوں میں، ہندوؤں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا، اس کے ساتھ ہی اسلامی سخت گیر افراد کے ذریعہ مسلم صوفی مزارات پر حملے بھی ہوئے۔

لالن شاہ کون تھے؟

سترہویں صدی کے بنگالی سماجی مصلح لالن شاہ کے مذہبی رواداری کے گیت کے سماج پر کافی اثرات ہیں۔ ان کے عقیدت مندوں نے اس ماہ کے آخر میں نارائن گنج شہر میں ایک دو روزہ میلہ کا اہتمام کیا تھا۔

پچھلے سال اس تقریب میں 10,000 سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی، جس نے اس فرقے کے فلسفے کو فروغ دینے والے موسیقاروں کو سنا، جو کہ کسی مخصوص مذہب کے بجائے ہندو مت اور تصوف کا مرکب ہے، جس سے کچھ اسلامی سخت گیر ناراض ہیں۔

نارائن گنج کے ڈپٹی کمشنر محمد محمود الحق نے کہا کہ شہر کے حکام نے سکیورٹی خطرات کے پروگرام کی منظوری نہیں دی تھی۔ انہوں نے مزید کہا، “یہ علاقہ مخالف نظریات رکھنے والے گروہوں کا گڑھ ہے۔”

فیسٹیول کے منتظم شاہ جلال نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب انہیں پروگرام منسوخ کرنا پڑا۔

کافی اثرو رسوخ رکھنے والی اسلامی تنظیموں کے اتحاد، حفاظت اسلام، کے رہنما عبدالاول نے اس ماہ کے شروع میں ہی اس میلے کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک مارچ کی قیادت کی۔ ان کا کہنا تھا، “ہم ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے سکتے جو اسلام کی اصل روح سے متصادم ہوں۔”

عبدالاول نے الزام لگایا کہ، “یہ لوگ جشن کے نام پر، بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں، جس میں خواتین گاتی اور ناچتی ہیں، جوا کھیلتی ہیں، اور بھنگ کا تمباکو نوشی کرتی ہیں۔”

فیسٹیول کی منسوخی ایک برا شگون

لالن کے پیروکار، جو سنیاسی “باؤل” گلوکار بھی کہلاتے ہیں، پیدل گھوم پھر کر گاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں، کچھ اسلام پسندوں کی طرف سے انہیں بدعتی قرار دیا گیا ہے۔

ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے والے ایک کارکن رفیع الربی نے کہا کہ “لالن میوزک فیسٹیول کی منسوخی ہم سب کے لیے ایک برا شگون ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “یہ مایوس کن ہے کہ حکومت اکثریتی دباؤ کے سامنے جھک رہی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اقلیتوں کی اب کوئی آواز نہیں رہے گی؟”

لیکن عبوری حکومت کے ثقافتی امور کے مشیر مصطفیٰ سرور فاروقی نے کہا کہ وہ جو کر سکتے تھے وہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “شیخ حسینہ کے زوال اور ان کے ملک سے فرار ہونے سے ایک خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے ناخوشگوار واقعات کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن ہم اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں