پشاور (نمائندہ ڈیلی اردو/وی او اے)صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں پاراچنار سے پشاور جانے والی کانوائی میں شامل مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 50 ہوگئی ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق واقعہ میں زخمی مزید 5 افراد دم توڑ گئے۔ واضح رہے کہ مسافروں کی گاڑیوں کو ضلع کرم کے لوئر علاقے میں نشانہ بنایا گیا۔ مسلح افراد نے پاراچنار سے پشاور آنے اور جانے والی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کی۔
جمعرات کی صبح ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار سے پشاور اور پشاور سے پاراچنار کے لیے 200 گاڑیوں پر مشتمل کانوائے روانہ ہوا تھا۔
مسافر گاڑیوں کے پہنچتے ہی مسلح افراد نے گاڑیوں پر اندھادھند فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 45 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دو روز قبل تک ضلعی انتظامیہ نے بتایا کہ فائرنگ سے جاں بحق افراد کی تعداد 50 ہوگئی جبکہ 80 افراد زخمی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
کرم میں تشدد کے واقعات کے بعد فریقین کے درمیان ایک ہفتے کے فائر بندی معاہدے کے باوجود کشیدگی برقرار ہے اور علاقے میں اب بھی فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی قبائلی عمائدین نے سات روز کے لیے فائر بندی پر اتفاق کیا ہے۔ اس دوران فریقین یرغمال بنائے گئے افراد کی واپسی کے علاوہ لاشیں بھی حوالے کریں گے۔
کرم میں کشیدگی کی نئی لہر جمعرات کو مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے شروع ہوئی تھی جس میں 40 سے زائد افراد ہلاک اور 80 زخمی ہو گئے تھے۔ واقعے کے بعد کرم کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں مزید 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد ہو گئے ہیں۔
ضلعی پولیس افسر جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ تاحال فریقین کے درمیان فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا جب کہ اب بھی حالات معمول پر نہیں آئے۔
مقامی افراد اور پولیس کا کہنا ہے کہ قریبی علاقوں میں اب بھی صورتِ حال کشیدہ ہے اور وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
مقامی پولیس اہلکار سلیم شاہ کے مطابق ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد گھر اور تقریباً 400 کے قریب دکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔
سلیم شاہ کے بقول فائرنگ کے تبادلے میں اموات بھی ہوئی ہیں۔ ہفتے کی شام بگن گاؤں کو نذرِ آتش کیے جانے کے بعد تقریباً تمام لوگ ٹل کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے سابق رُکن اسمبلی ساجد طوری کا کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ بات چیت مثبت رہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود علاقے میں کشیدگی برقرار ہے۔
ان کے بقول شیعہ کمیونٹی کی جانب سے حکومت کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ سڑک کو کھول دیا جائے۔
‘مختلف علاقوں سے فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں’
بگن کے رہائشی نبی خان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی مختلف علاقوں میں لڑائی جاری ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بگن اور علزئی، خوار کلی، بالش خیل، تری منگل اور پیواڑ جب کہ غوز گڑی اور کنج علزئی میں وقفے وقفے سے فائرنگ کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
سنی کمیونٹی کی جانب سے حکومتی جرگے سے بات چیت کرنے والے حاجی سلیم خان اورکزئی کہتے ہیں کہ حکومتی وفد ان کے عمائدین سے ملنے کے لیے صدہ آیا اور دن بھر بات چیت جاری رہی جس کے بعد حکومتی وفد شام کو پشاور روانہ ہوا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے جلد بازی میں سیز فائر کا اعلان تو کر دیا تاہم اس پر عمل درآمد تاحال نہیں ہو رہا ہے۔
ان کے بقول تاحال کچھ قیدیوں کا تبادلہ رہتا ہے اور جیسے ہی وہ مکمل ہو جائے گا تب جنگ بندی ہو جائے گی۔
ملک حاجی سلیم خان کا کہنا تھا کہ یرغمال بنائے گئے افراد کی واپسی اور ڈیڈ باڈیز کی منتقلی کے بعد ہی لڑائی مکمل طور پر ختم ہو سکے گی۔
یاد رہے کہ 2008 میں شیعہ اور سنی برادری کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا۔
معاہدے میں کہا گیا تھا کہ دونوں اطراف کی تمام سڑکیں کھلی رکھیں گے۔ بے گھر افراد اپنے گاؤں واپس جائیں گے اور پرانی دستاویزات اور پشتون روایات کی بنیاد پر زمین کے تنازعات کو حل کیا جائے گا۔